الہام اور آزادی

اس نظم میں علامہ اقبال نے الہام کے فیوض و برکات کو واضح کیا ہے جبکہ یہ الہام بندۂ آزاد ( وہ انسان جو دنیا کی مادّی اور باطل نظریات کی غلامی سے آزاد ہو یعنی مردِ مومن) کو عطا ہو۔ لیکن جب یہی الہام کسی مادّہ پرست اور باطل پرست کو حاصل ہو جائے تو وہ صرف فتنہ و فساد اور ظلم کا باعث بنتا ہے۔

 ہو بندۂ آزاد اگر صاحبِ اِلہام
 ہے اس کی نِگہ فکر و عمل کے لیے مہمیز

معنی

اِلہام: خدا کی طرف سے دل میں آئی ہوئی بات یا خیال، القا۔
نگہ: نگاہ کا مخفف، نظر۔
مہمیز: لوہے کا کانٹا جو سواروں کی ایڑی پر لگا ہوتا ہے اور اس سے گھوڑے کو ایڑ دیتے ہیں، (مجازاً) تحریک ، ترغیب۔

تشریح

الہام ﷲ تعالیٰ کی طرف سے بندوں پر خاص کرم ہے جو ﷲ اپنے برگزیدہ. بندوں کو عطا کرتا ہے۔ اگر الہام کی نعمت بندۂ حُر (مردِ مومن) کو عطا ہوتی ہے تو پوری انسانیت اس سے مستفیض ہوتی ہے۔ اس مردِ مومن کی نگاہ ہی فکر و عمل کو ترغیب و تحریک دینے اور اسے صحیح سمت لے جانے کے لئے کافی ہوتی ہے۔ جس مومن کی نگاہ کا یہ عالم ہو اسکی قوتِ بازو کا کیا عالم ہوگا۔ اس بات کو علامہ نے یوں بھی واضح کیا ہے:

کوئی اندازہ کر سکتا ہے اسکے زورِ بازو کا
نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں۔


 اس کے نفَسِ گرم کی تاثیر ہے ایسی
 ہو جاتی ہے خاکِ چَمنِستاں شرر آمیز

معنی

شرر آمیز: جس میں چنگاری جیسی تاثیر ہو، حرارت سے بھری ہوئی۔

تشریح

ایسے مردِ مومن کے وجود سے ہر ایک مستفیض ہوتا ہے۔ اسکی سانس میں ہی اتنی حرارت ہوتی ہے کہ اسک کی گرمی سے چمن کی خاک سے بھی شعلے نکلتے لگتے ہیں یعنی اس مردِ مومن کی صحبت میں رہنے والے عام انسانوں میں بھی فکر و عمل کا جوش و جذبہ اور غیرتِ ایمانی بلند سے بلند تر ہوتی چلی جاتی ہے۔


 شاہِیں کی ادا ہوتی ہے بُلبل میں نمودار
 کس درجہ بدل جاتے ہیں مُرغانِ سحَر خیز

تشریح

بلبل ایک کمزور پرندہ ہے اور چمن کی محبت میں گرفتار یا اس کا غلام ہوتا ہے جو اسکی کمزوری کو مزید دوچند کر دیتا ہے، اس شعر میں بلبل سے کمزور اور غلام انسان مراد ہیں۔ شاہین ایک آزاد پرندہ ہے جو چمن و پھول کی غلامی سے آزاد ہوتا ہے، آسمان کی بلندیوں میں پرواز کرتا ہے اور بلند پہاڑوں ہی پر اپنا گھونسلہ بناتا ہے۔ شاہین آزادی، بلندی، طاقت اور شجاعت کا استعارہ ہے۔

دنیا کے کمزور اور غلامانہ ذہنیت رکھنے والے انسان جب مردِ مومن کی صحبت میں آتے ہیں تو انکے شب و روز یکسر بدل جاتے ہیں، انکی غلامی آزادی میں، کمزوری قوت و شجاعت میں، اور پستی بلندی میں تبدیل ہو جاتی ہے۔


 اُس مردِ خود آگاہ و خدا مست کی صحبت
 دیتی ہے گداؤں کو شکوہِ جم و پرویز

معنی

گدا: فقیر، غریب۔
شکوہ: شان و شوکت۔
جم: ایران کے بادشاہ جمشید کا مخفف۔
پرویز: ایران کا مشہور بادشاہ، خسروِ ثانی۔

تشریح

اس مردِ خود آگاہ اور خدا مست کی صحبت میں رہنے والے کمزور اور فقیر انسانوں کے نہ صرف ایمان و اخلاق بلند ہوتے ہیں بلکہ وہ دنیاوی اعتبار سے بھی پستی سے ترقی و بلندی کی طرف بڑھتے ہیں۔ چنانچہ مسلمانوں کی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ کیسے بے سروسامانی کے باوجود مسلمانوں نے قیصر و کسریٰ کو تہہ و بالا کر دیا، اور ان فقیر مسلمانوں کی شان و شوکت اور حکومت کے سامنے جمشید و خسرو پرویز کی بادشاہی بھی ہیچ تھی۔


محکوم کے اِلہام سے اللہ بچائے
 غارت گرِ اقوام ہے وہ صُورتِ چنگیز

تشریح

لیکن یہ الہام اگر مردِ مومن کے بجائے کسی غلامانہ ذہنیت اور باطل نظریہ رکھنے والے شخص کو حاصل ہو جائے تو یہ سوائے فساد و ظلم کے علاوہ کچھ نہیں دے گا۔ جس طرح حکومت جیسی طاقت اگر چنگیز خان کے ہاتھ آ جائے تو یہ صرف قوموں کے قتلِ عام باعث بنتی ہے، اسی طرح الہام جیسی شے اگر کسی محکوم کو مل جائے تو یہ قوموں میں فکر و عمل کی گمراہی اور بے راہ روی کا ذریعہ بنتا ہے۔ اس نکتۂ نظر سے چنگیزی حکومت اور محکوم کے الہام میں کوئی فرق نہیں ہے۔