علامہ اقبال کہتے ہیں کہ انگریزوں نے جو تعلیمی نظام ہندوستان میں نافذ کیا ہے اس کا ایک ہی مقصد ہے کہ کس طرح غلامانہ ذہنیت رکھنے والے لوگوں کی ایک نسل تیار کی جائے جو صرف اپنے معاش اور شکم پرستی کی فکر میں مبتلا ہو۔ اس نظام نے خالقِ کائنات سے تعلق رکھنے والی روح اور اپنی خودی و کائنات میں غور و فکر کرنے والے شعور کو مردہ کر دیا ہے۔ یعنی اس نظام نے نوجوانوں کی روح قبض کر لی ہے اور اسکو فکرِ معاش کے زہر کے ذریعہ موت کی نیند سلا دیا ہے۔ اس مدعا کو علامہ نے یوں بھی بیان کیا ہے:
وہ عِلم نہیں، زہر ہے احرار کے حق میں
جس علم کا حاصل ہے جہاں میں دو کفِ جوَ
اے نوجوان! اس فاسد نظام کی چمک دمک اور تمہاری شکم پرستی نے تم کو بزدل اور مرعوب کر دیا ہے۔ تُو اس نظام کے خلاف آواز اٹھانے سے ڈر رہا ہے اور جی چرا رہا ہے۔ باطل نظام سے مرعوبیت و خوف اور اپنے ذاتی مفاد کی وجہ سے تعلیم کے بارے میں اسلامی نقطۂ نظر کو پیش کرنے سے کترا رہے ہو۔ جو شخص حق و باطل اور فاسد و صالح طریقوں میں فرق کرنے کا شعور کھو دے اور حق و صالح نظام کے لئے تکالیف اور مصائب برداشت کرنے سے فرار کی راہ اختیار کرتا ہے وہ شخص زندگی کے تمام طبعی عناصر ہونے کے باوجود مردہ اور بےروح ہے۔
اے نوجوان! تیرے اسلاف خدا و رسول کے عشق اتنے سرشار تھے کہ انھوں نے حق کی راہ آنے والی کسی بھی آزمائش اور مصیبت سے فرار کی راہ اختیار نہیں کی اور نا ہی کبھی کوئی حیلے بہانے بنائے۔ ماضی میں مسلمانوں کی سر بلندی و ترقی کی وجہ یہی جنون ہی تھا۔ موجودہ تعلیمی نظام نے تمہارے اندر سے اسی عشق و جنون کو ختم کر دیا ہے اور اسی وجہ تم اس باطل نظام سے مرعوب ہو اور اس فاسد نظام مداہنت کے بہانے تلاش کر رہے ہو۔
اے نوجوانِ مسلم! ﷲ نے تمہارے اندر شاہین کی وہ نگاہ رکھی تھی جو ہمیشہ بلندی کی طرف اٹھتی ہے جو زمین کی پستی میں پڑی ہوئی چیزوں کو خاطر میں نہیں لاتی۔ لیکن اس غلامانہ طرزِ تعلیم تجھ سے نگاہِ بلند چھین لی ہے اور اس آنکھ میں چمگادڑ کی نگاہ رکھ دی ہے جو نہ تو بلندی کی طرف اٹھ سکتی ہے اور نہ ہی (حق کی) روشنی میں کھل سکتی ہے بلکہ ظلمت اور گمراہی سے اس کا مقدر ہو جاتا ہے، جس کی وجہ سے وہ راہِ حق کو پہچان ہی سکتی ہے۔
اس شعر میں علامہ نے دورِ حاضر کے نظامِ تعلیم سے ہونے والے اثراتِ بد سے بچنے کا طریقہ بتایا ہے۔ کہتے ہیں کہ کالج نے جن حقائق اور بلندیوں کو تیری نگاہوں سے اوجھل کر دیا ہے، وہ حقائق تمہیں کالجوں کے پراگندہ ماحول سے دور پہاڑوں اور جنگلوں کے فطری ماحول میں خدا سے لَو لگانے اور صالحین کی صحبتوں سے حاصل ہو مل سکتے ہیں۔ یعنی فطرت کے وہ مناظر جو انسان کو اپنے وجود میں غور و فکر کرنے دعوت دیتے ہیں اور خالقِ کائنات کے قریب کرتے ہیں۔