پہلا شعر
علامہ اقبال کہتے ہیں کہ میں اس نیک انجام بادشاہ کی خدمت میں ہدیۂ مبارکباد پیش کرتا ہوں جس نے اپنے ضمیر کی آزادی برقرار رکھنے کے لئے اپنے تخت و تاج کو قربان کر دیا۔ یعنی ا س نے تخت و حکومت کو کمتر جانا اور اپنے ضمیر کو بلند رکھا۔ اس کی اس قربانی سے ملوکیت کی بے وقعتی اور ظالمانہ طرزِ فکر و عمل ، جو دنیا کے لئے ایک راز تھا ، وہ فاش ہو گیا۔
دوسرا شعر
اور اس قربانی سے ملوکیت کی حقیقت اہل دنیا پر واضح کر دی کہ انگریزوں کی نگاہ میں بادشاہ کی حیثیت بالکل مٹی کے اس بت کی سی ہے جسے پجاری جب چاہیں پاش پاش کر دیں۔ دراصل ان کی نگاہ میں بادشاہ کی کوئی قدروقیمت نہیں ہے(وہ اپنی رفیقۂ حیات بھی اپنی مرضی سے منتخب نہیں کر سکتا)۔ پجاری سے مراد ایوان کے ممبران اور وزیرِ اعظم ہیں جنھیں برطانیہ کے شہنشاہ سے زیادہ حیثیت اور طاقت حاصل ہوتی ہے۔
تیسرا شعر
ان انگریزوں نے ہمیں اپنے افکار و نظریات کا غلامی کے نشے میں رکھنے کے لئے مشک کی خوشبو کی شکل میں افیون کی گولیاں دی ہیں یعنی یہ ڈھونگ انہوں نے محض ہم غلاموں کو قابو میں رکھنے کے لیے رچا رکھا ہے، چنانچہ انہوں نے اس بادشاہ کو جو ان کی مرضی کے مطابق نہیں تھا اپنے ملک سے نکال دیا اور ہمیں مرعوب کرنے کے لئے دوسرے بادشاہ کو تخت پر بیٹھا دیا۔