پہلا بند
اوروں کا ہے پیام اور، میرا پیام اور ہے
عشق کے درد مند کا طرزِ کلام اور ہے
معنی
میرا پیام اور ہے: یعنی اقبال قوم کو عشق کا درس دینا چاہتے ہیں۔
شرح
اوروں یعنی عقل کے منشاء پر چلنے والوں کی تلقین اور ہے (جو یہ کہ دنیا میں خوب ترقی حاصل کرو، عہدے حاصل کرو، دولت حاصل کرو، خطابات حاصل کرو) لیکن میں کچھ اور کہتا ہوں یعنی عقل والوں کے مسلک کے خلاف مسلکِ عشق اختیار کرنے کی تلقین کرتا ہوں اور عشق سے میری مراد عشقِ حقیقی ہے۔
دوسرا بند
طائرِ زیرِ دام کے نالے تو سن چکے ہو تم
یہ بھی سنو کہ نالۂ طائرِ بام اور ہے
معنی
طائرِ زیرِ دام: غلام یا محکوم پرندہ، عقل پرست شخص مراد ہے۔
طائرِ بام: چھت کے اوپر بیٹھا ہوا پرندہ، مراد شہباز۔
شرح
اے نوجوانوں ! تم اپنی قوم کے محکوم اور غلام رہنماؤں کی تقریریں تو بہت سن چکے ہو اب ذرا ایک مومن (شہباز) کا پیام بھی سن لو۔ یعنی مردِ مومن کا پیام غلام کے پیغام سے مختلف ہوتا ہے۔
تیسرا بند
آتی تھی کوہ سے صدا رازِ حیات ہے سکوں
کہتا تھا مورِ ناتواں لطفِ خرام اور ہے
معنی
رازِ حیات: زندگی کی اصلیت یا حقیقت۔
مُور: چیونٹی، جدجہد مراد ہے۔
خِرام: ناز و ادا کی چال۔
شرح
عیش پسند، عافیت کوش اور قابل افراد یہ کہتے ہیں کہ سکون(بے عملی) ہی انسانی زندگی کا مقصد ہے لیکن چیونٹی کی طرح جدوجہد کرنے والے اس کے خلاف یہ تلقین کرتے ہیں کہ زندگی کا لطف جد وجہد میں اور کوشش میں پوشیدہ ہے۔
چوتھا بند
جذبِ حرم سے ہے فروغ انجمنِ حجاز کا
اس کا مقام اور ہے اس کا نظام اور ہے
معنی
جذبہ حرم:عشقِ رسولؐ مراد ہے یا عشقِ حقیقی مراد ہے۔
فروغ: آب و تاب،ترقی،رونق۔
انجمنِ حجاز: ملت اسلامیہ مراد ہے۔
مقام: مرتبہ یا اعزاز یا درجۂ بلند۔
نظام:بنیادی اصول جن پر دینِ اسلام مبنی اور موقوف ہے۔
شرح
ملت اسلامیہ کی ساری عزت عشقِ رسولؐ پر منحصر ہے، اگر افرادِ قوم کے دل میں عشقِ رسولؐ کا جذبہ کارفرما ہوگا تو قوم کو فرغ حاصل ہوگا۔اے نوجوانوں ! عشقِ رسولؐ کا مقام بہت بلند ہے اور عشق انسان کی زندگی میں بہت بلند پایہ نظام پیدا کر دیتا ہے، عشق کا مقام اور اس کا قائم کردہ نظام دنیا کی ہر شئے سے اعلیٰ و ارفع ہے۔
پانچواں بند
موت ہے عیشِ جاوداں، ذوقِ طلب اگر نہ ہو
گردشِ آدمی ہے اور گردشِ جام اور ہے
معنی
جاوداں: ہمیشہ رہنے والا۔
ذوقِ طلب: عشقِ رسولؐ مراد ہے۔
گردشِ آدمی: حالت عشق و مستی۔
گردش جام: عیش و عشرت۔
شرح
اگر کسی شخص کے دل میں ذوقِ طلب نہ ہو یعنی عشقِ رسولؐ کا جذبہ موجزن نہ ہو تو اس کا انجام فنا ہے وہ شخص کبھی حیات ابدی حاصل نہیں کر سکتا۔یاد رکھو! گردش جام یعنی عیش و عشرت اور گردش آدمی یعنی جذبۂ محبتِ رسولؐ دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے، یاد رکھو! شراب کی مستی کو عشقِ رسولؐ کی مستی سے کوئی نسبت نہیں ہے اگر چہ مستی دونوں جگہ موجود ہے۔
چھٹا بند
شمع سحر یہ کہہ گئی سوز ہے زندگی کا ساز
غم کدۂ نمود میں شرط دوام اور ہے
معنی
سوز: گرمی، عشقِ حقیقی مراد ہے۔
ساز: آلاتِ موسیقی (کامیابی)۔
نُمود: رونق، شان و شوکت۔
شرطِ دوام: ابدی زندگی حاصل کرنے کی شرط۔
شرح
صبح ہوتے شمع نے اپنے ختم ہونے سے پہلے یہ نکتہ بیان کیا کہ اے اہلِ محفل! اگر زندگی کو کامیاب بنانا چاہتے ہو تو دل میں سوز پیدا کرو کیونکہ ساز حیات سوز و گداز پر موقوف ہے، جب تک عشق اختیار نہ کروگے تم مقصدِ حیات میں کامیاب نہ ہو گے ۔یاد رکھو! اس دنیا میں، جو غمکدئہ نمود سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتی ،شرطِ دوام صرف یہ ہے کہ آدمی (عشق رسولؐ ) اختیار کرے اس کے بغیر اسے ہمیشگی کی زندگی کبھی حاصل نہیں ہو سکتی۔
ساتواں بند
بادہ ہے نیم رس ابھی، شوق ہے نارسا ابھی
رہنے دو خُم کے سر پہ تم خشتِ کلیسیا ابھی
معنی
بادہ: شراب، عشقِ رسول یا اسلامی انقلاب برپا کرنے کا جذبہ مراد ہے۔
نیم رس ابھی: یعنی ابھی شراب میں نشہ کی کیفیت پوری طور سے پیدا نہیں ہوئی ہے۔
خم: شراب کا مٹکا ۔
شراب: ملت اسلامیہ یا علی گڑھ کالج کے طلبہ۔
خشتِ کلیسا: گرجا کی اینٹ، مراد ہے انگریز پرنسپل یا انگریزی حکومت یا انگریزی تعلیم و تربیت یا کافرانہ نظامِ تعلیم۔
شرح
اے نوجوانوں! تمہاری شراب (خواہشِ انقلاب) ابھی پختہ نہیں ہوئی ہے اور تمہارا جذبۂ شوق(عشقِ رسولؐ) بھی ابھی مرتبۂ کمال کو نہیں پہنچا ہے، یعنی ابھی تمہارے اندر اسلامی انقلاب برپا کرنے کی صلاحیت نہیں ہوئی ہے اس لئے مصلحتاً تم ابھی کچھ عرصہ کے لئے کالج کا نظم و نسق انگریز پرنسپل (انگریزی حکومت) ہی کے ہاتھ میں رکھو۔