عہد طفلی

اقبال  نے اس  پوری نظم میں بچپن کی نفسیات    کو دکھایا  ہے    اور ایک بچے کا دنیا کے  بارے میں  زاویۂ نگاہ   کو  شعر کے لطیف پیرائے میں  پیش کیا ہے۔

پہلا بند

تھے دیارِ نو زمین و آسماں میرے لئے
وسعتِ آغوشِ   مادر اک جہاں میرے لئے
تھی ہر اک جنبش نشانِ لطفِ جاں میرے لئے
حرفِ بے مطلب تھی خود میری زباں میرے لئے
درد، طفلی میں اگر کوئی رلاتا تھا مجھے
شورشِ زنجیرِدر میں لطف آتا تھا مجھے۔

معنی

دیار نو: نئی دنیا
وسعت:پھیلاؤ
آغوش مادر: ماں کی گود 
جنبش : ہلنا، حرکت
طفلی : بچپن

تشریح

پہلے بند میں اقبال جو کہ ایک بچے کے ترجمان کی حیثیت سے نظم پیش کر رہے ہیں ، کہتے ہیں کہ  جب میں اس دنیا میں آیا  تو زمین  اور آسمان میرے لئے بالکل نئی چیز تھی ،ایک الگ ہی فضا مجھے ملی تھی ۔
ماں کی گود  کی وسعت بھی میرےلئے ایک   دنیا کے مانند تھی اور میں گھنٹوں ماں کی گود میں بھی رہ کر خوش رہتا تھا۔اقبال یہاں کہنا چاہ رہے ہیں کہ اگر ایک بچے کو اسکی ماں کی گودکی وسعت میسر آ جائے  تو وہ زمین و آسمان کی وسعتوں  میں بھی غوطہ زن ہو  سکتا ہے۔
آگے بچہ کہتا ہے کہ جب بھی کہیں کوئی حرکت ہوتی یا کچھ ہوتا تھا تو میں فوراً اس چیز کی طرف مائل ہو جاتا تھا اور اس میں مجھے بہت مزہ آتا تھا۔ میں جو چیز سمجھتا تھا اس کو میں اپنے الفاظوں میں سمجھانے کی کوشش کرتا تھا جو کہ خود مجھے بھی نہیں سمجھ آتا تھا ۔
ان ساری چیزوں میں اگر مجھے کہیں کوئی تکلیف ہوتی تھی یا مجھے کوئی رلادیا کرتا تھا  تو دروازے  کی زنجیر کو ہلتے ہوئے دیکھ کر میں اپنا دکھ درد بھول کر  اسکی جنبش سے لطف اندوز ہوتا تھا۔


دوسرا بند

تکتے رہنا ہائے وہ پہروں تلک سوئے قمر
وہ پھٹے بادل میں بے آواز پا اس کا سفر
پوچھنا رہ رہ کے اس کے کوہ و صحرا کی خبر
اور وہ حیرت دروغ مصلحت آمیز پر
آنکھ وقف‌ دید تھی لب مائل گفتار تھا
دل نہ تھا میرا سراپا ذوق استفسار تھا

معنی

سوئے قمر :چاند کی طرف
کوہ و صحرا:پہاڑ اور ریگستان
دروغِ مصلحت آمیز : کسی مصلحت کے لئے جھوٹ بولنا (شیخ سعدی  کی کتاب گلستاں و بوستان کی ایک داستان)
وقفِ دید:  دیکھنے کے لئے  منتظر اور رکی ہوئی۔
مائلِ گفتار: بولنے کا شوق
لب: ہونٹھ
ذوقِ استفسار:    سوال پوچھنے کا ذوق و شوق

تشریح

میں کافی دیر تک چاند کو دیکھا کرتا تھا جو بنا آواز کئے چپ چاپ پھٹے ہوئے بادل میں اپنی منزل کی  طرف سفر کرتا چلا جاتا تھا  ،اس کو دیکھنے میں میں بہت دلچسپی  لیتا تھا اور اسی میں مگن رہتا تھا۔اس کو دیکھنے کے بعد میرے من میں  کچھ سوالات  اٹھا  کرتے تھے کہ اس میں کون رہتا ہے ،پہاڑ ہے یا نہیں ،  صحرا ہے یا نہیں  اور ہیں تو کیسے ہیں ، وغیرہ  ۔ میرے ان سارے سوالات کو سن کر میرے والدین کبھی ٹال دیا کرتے تھے   اورکبھی میری دل جوئی کے لئے دروغِ   مصلحت آمیز  (یہ شیخ سعدی  کی ایک داستان ہے جس میں ایک راجا نے ایک شخص کو سزا ئے  موت دی تھی تو وہ    اپنی زبان  میں بادشاہ کو گالیاں دینے لگا  اور بادشاہ سمجھ نہ سکا  تو اس نے نے وزیر سے پوچھا کہ اس نے کیا کہا ہے تو وزیر جو  رحم دل تھا  اس نے جھوٹ بولا اور کہا کہ اس نے آپکی تعریف کی ہے، لیکن دوسرے وزیر نے سچ بتا دیا تو بادشاہ نے دوسرے وزیر کی طرف سے منھ پھیر کر کہا کہ تمہارے سچ سے اس کا جھوٹ   بہتر ہے۔) سے کام لے کر  کوئی جھوٹی  بات یا قصے کہانیاں سنا دیا کرتے تھے اور میں ان جھوٹے واقعات کو سن کر   بڑے تعجب کے ساتھ خوشی کا اظہار کرتا رتھا۔ 
آخری شعر  میں اقبال بچے کے حوالے سے کہتے ہیں کہ آنکھ وقف دید تھی یعنی آنکھ ہمیشہ ہرکت میں رہتی تھی  جو ہر وقت کچھ نہ کچھ دیکھنے کے لئے شائق  رہتی تھی اور لب مائل گفتار تھا یعنی جو کچھ بھی میں دیکھتا تھا اس کو اپنے الفاظ میں بیان کرنے کی کوشش کرتا تھا  ۔  اور یہ جو کچھ بھی مشاہدات میری نگاہ  و خیال میں آتے ان کے بارے میں میرے دل میں ہزاروں سوالات اٹھتے تھےیعنی میرا دل ان سوالات کی آماجگاہ بنا ہوا تھا  جو کہ میری فطرتِ صالحہ  کے عین مطابق تھا۔