محراب گل افغان

علامہ اقبال نے ضربِ کلیم کے آخری حصہ میں افغانستان اور افغانیوں کے بارے میں ‘محراب گل افغان’ کے ایک فرضی نام سے اپنے فکار و خیالات کا اظہار کیا ہے۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ اگر افغان بیدار ہو جائیں گے تو کم سے کم ایشیا میں اسلام سربلند اور غالب ہو جائے گا۔ ان نظموں میں علامہ کی فکر” کیا عجب کہ اس قوم کی بیداری میں میں کوئی حصہ لے سکوں ” جھلکتی ہے۔ یہ نظم انہیں میں سے ایک ہے۔

رومی بدلے، شامی بدلے، بدلا ہندوستان
تو بھی اے فرزندِ کوہستاں! اپنی خودی پہچان
اپنی خودی پہچان
او غافل افغان

معنی

کوہستان: پہاڑ، پہاڑی ملک۔

تشریح

اے پہاڑ کے دامن میں رہنے والے بہادر! تم آنکھ اٹھا کر پوری دنیا کو دیکھو ہر طرف انقلاب کی آمد آمد ہے، چاہے وہ یورپ ہو، شام ہو یا ہندوستان، چہار جانب بدلاؤ نظر آئے گا۔ اے فرزند توحید! تم بھی اب غفلت کو چھوڑ کر اپنی دینی و اسلامی شناخت کو پہچانو، قدرت نے تمہارے اندر جو صلاحیتیں رکھی ہیں ان کو بروئے کار لاکر اسلام کے پرچم کو سربلند کرو۔


 موسم اچھا، پانی وافر، مٹی بھی زرخیز
 جس نے اپنا کھیت نہ سینچا، وہ کیسا دہقان
 اپنی خودی پہچان
 او غافل افغان

معنی

وافر: کثرت، بہت زیادہ۔
دہقان: کسان۔

تشریح

اگر ایک کسان کھیتی کے لئے سارے وسائل موجود ہو اور وہ اپنا کھیت نہ سینچے تو ایسا کسان کسان نہیں ہو سکتا۔ یعنی جب اللہ تعالیٰ نے تم کو جسمانی قوت دی ہے، شجاعت و حوصلہ بھی دیا ہے اور انقلاب کے جنگ و جدل کا شوق بھی دیا ہے تو پھر تم کو اپنی ان صلاحیتوں کو اسلام (کھیتی) کے فروغ میں استعمال کرنا چاہیے۔


اُونچی جس کی لہر نہیں ہے، وہ کیسا دریاے
 جس کی ہوائیں تند نہیں ہیں، وہ کیسا طوفان 
اپنی خودی پہچان
 او غافل افغان

تشریح

جس طرح اونچی لہروں کے بنا کسی سمندر کا وجود نہیں اور تیز ہواؤں کے بنا کوئی طوفان نہیں ہوتا، تمہیں بھی اپنی صفوں کو اتنا مضبوط بنانا ہوگا کہ سمندر کی لہروں کی مانند باطل پر ڈٹ جاؤ اور ان پر ٹوٹ پڑو، اور تمہیں وہ طوفان بننا ہوگا جس میں باطل خس و خاشاک کی طرح اڑ جائے۔ یہ سب کچھ تبھی ممکن ہے جب تم اپنی خودی اور ایمان کو بلند سے بلند تر کرو۔


 ڈھونڈ کے اپنی خاک میں جس نے پایا اپنا آپ
 اُس بندے کی دہقانی پر سلطانی قربان
 اپنی خودی پہچان 
او غافل افغان

تشریح

اقبال افغانیوں کو خطاب کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں یاد رکھو! جس کسی نے اپنا محاسبہ کرکے اور اپنی ذات پر غور و فکر کر کے اپنی خودی اور صلاحیتوں کو پہچان کر انکی آبیاری کی، ایسے کسان اور مزدور کی عظمت کا مقابلہ کوئی سلطان بھی نہیں کر سکتا۔ اس لئے اے غفلت میں پڑے ہوئے افغان! اپنی عظمت اور خودی کو پہچان۔


 تیری بے عِلمی نے رکھ لی بے عِلموں کی لاج 
عالِم فاضِل بیچ رہے ہیں اپنا دین ایمان
 اپنی خودی پہچان 
او غافل افغان

تشریح

علامہ کہہ رہے ہیں کہ یہ سچ ہےکہ اے افغان! تمہاری وادیوں میں علم و حکمت اور علماء کی اتنی کثرت نہیں ہے جتنی ہندوستان اور باقی دنیا میں ہے، لیکن تیری یہ کم علمی ان علماء اور فضلاء سے بہتر جنھوں نے ذاتی اغراض اور چند دنیاوی فائدوں کے لئے اپنا دین و علم باطل کے ہاتھوں بیچ ڈالا ہے۔