ہسپانیہ

(ہسپانیہ کی سرزمین میں لِکھّے گئے، واپس آتے ہوئے)
یہ نظم علامہ اقبال نے دورۂ اسپین (1933) ، سے واپسی کے دوران لکھی۔ علامہ اقبال نے دورۂ اسپین کے دوران کئی نظمیں لکھی ہیں جن میں ‘دعا’، ‘عبدالرحمن الداخل اول کا بویا ہوا کھجور کا درخت’ ، ‘قید خانے میں معتمد کی فریاد’ ، ‘ہسپانیہ’ اور علامہ کی سب سے بڑی اور شاہکار اردو نظم ‘مسجدِ قرطبہ’ شامل ہیں۔ ان کے علاوہ دوسری نظموں میں بھی اقبال جا بہ جا زوالِ غرناطہ اور قرطبہ پر آنسو بہاتے نظر آتے ہیں۔ یہ نظم اسی غم کا ایک اظہار ہے۔

 ہسپانیہ تُو خُونِ مسلماں کا امیں ہے
 مانندِ حرم پاک ہے تُو میری نظر میں

معنی

ہسپانیہ: اسپین
امین: جس پر اعتماد و بھروسہ کیا جا سکے، نگرانی کرنے والا۔

تشریح

اقبال کہتے ہیں کہ اے سر زمینِ اسپین! تیری مٹی میں ہمارے شہیدوں کا لہو جذب ہے اور تُو آج بھی گویا اس مبارک خون کو اپنے اندر رکھ کر اسکی نگہبانی کر رہی ہے۔ اس لئے تیری عزت و حرمت اور پاکیزگی میری نظر میں حرمِ پاک کے مانند ہے۔


پوشیدہ تری خاک میں سجدوں کے نشاں ہیں

 خاموش اذانیں ہیں تری بادِ سحَر میں

معنی

بادِ سحر: وہ صحت بخش اور خوش گوار ہوا جو صبح کے وقت چلتی ہے۔

تشریح

تیری خاک میں مجھے مسلمانوں اور غازیوں کے سجدوں کے نشان چھپے ہونے کے باوجود بھی نظر آتے ہیں یعنی تُو ان سجدوں کی بھی امین ہے اور ایک بار پھر فرش عبادت بننے کی منتظر ہے۔ تیری فضا میں مجھے خاموش اذانیں سنائی دے رہی ہے جو اہلِ نظر کو اپنی طرف متوجہ کر رہی ہے کہ پھر سے یہاں حق کی آواز گونجنی ہے۔


روشن تھیں ستاروں کی طرح ان کی سنانیں
 خیمے تھے کبھی جن کے ترے کوہ و کمر میں

معنی

سنان: تیر کی نوک، نیزے کا اوپری حصہ۔

تشریح

یہ اذانیں اور سجدے ان غازیوں کی یاد دلاتے ہیں جو کبھی تیری وادیوں میں رہا کرتے تھے۔ اور حق کے لئے انھوں نے جو نیزے اٹھا رکھے تھے انکی بلندی اور چمک آسمان کے ستاروں کے مانند تھی جو ظلم کی شبِ تاریک میں روشنی کی امید تھے۔


پھر تیرے حسینوں کو ضرورت ہے حِنا کی؟
 باقی ہے ابھی رنگ مرے خُونِ جگر میں

معنی

حنا: مہندی، مہندی کا لال رنگ۔

تشریح

اے سر زمین اسپین! اگر تیری خوبصورتی اور سرخی میں کمی ہو گئی ہے تو آج بھی مسلم امت میں قربانی کا اتنا جذبہ موجود ہے کہ وہ تیری خاک کو دوبارہ اپنے لہو سے سرخ کرنے کو تیار ہے۔ یعنی تیری حرمت آج بھی ہمارے دلوں اتنی ہی ہے اور ہم تیری حرمت پر مر مٹنے کو تیار ہیں۔


 کیونکر خس و خاشاک سے دب جائے مسلماں
 مانا، وہ تب و تاب نہیں اس کے شرر میں

معنی

خس و خاشاک: گھاس پھونس۔
شرر: آگ کی چنگاری۔

تشریح

علامہ اقبال مسلمانوں کو احساسِ کمتری سے نکالنے اور انکی ہمت بڑھاتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ اگرچہ مسلمانوں کے اندر وہ جوش و جذبہ موجود نہیں ہے جو انکے اسلاف میں تھا اسکے باوجود وہ باطل کی سازشوں اور طاقت سے دبنے والے نہیں ہیں، وہ ناسازگار حالات کو سازگار بنا سکتے ہیں۔


غرناطہ بھی دیکھا مری آنکھوں نے و لیکن
 تسکینِ مسافر نہ سفر میں نہ حضَر میں
دیکھا بھی دِکھایا بھی، سُنایا بھی سُنا بھی
 ہے دل کی تسلّی نہ نظر میں، نہ خبر میں

معنی

غرناطہ: اسپین کا ایک شہر اور صوبہ جو اسپین کی آخری مسلم ریاست تھی۔
حضر: گھر میں رہنے کی حالت، سفر کی ضد۔

تشریح

آخری دو اشعار میں اقبال اپنا دردِ دل بیان کر رہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ میں نے اسپین میں الحمرا کے علاوہ غرناطہ اور اسکی مسجد کو بھی دیکھا ہے لیکن مجھ مسافر کو نہ تو وہاں رہ کر سکون ملا اور نہ ہی واپس آکر سکون ملنے والا ہے۔

میں نے ہسپانیہ میں مسلمانوں اور انکی باقیات کے بارے میں بہت کچھ دیکھا اور سنا ہے اور لوگوں کو بھی بہت کچھ دکھانا اور سنانا ہے، لیکن ان سب سے میرے دل کو تسلی نہیں ملنے والی۔ کیونکہ جو کچھ ہم نے کھویا ہے اس کا غم بہت بڑا ہے، وہ محض سنانے اور بیان کرنے سے ہلکا نہیں ہونے والا۔