اقبال کہتے ہیں کہ اے سر زمینِ اسپین! تیری مٹی میں ہمارے شہیدوں کا لہو جذب ہے اور تُو آج بھی گویا اس مبارک خون کو اپنے اندر رکھ کر اسکی نگہبانی کر رہی ہے۔ اس لئے تیری عزت و حرمت اور پاکیزگی میری نظر میں حرمِ پاک کے مانند ہے۔
تیری خاک میں مجھے مسلمانوں اور غازیوں کے سجدوں کے نشان چھپے ہونے کے باوجود بھی نظر آتے ہیں یعنی تُو ان سجدوں کی بھی امین ہے اور ایک بار پھر فرش عبادت بننے کی منتظر ہے۔ تیری فضا میں مجھے خاموش اذانیں سنائی دے رہی ہے جو اہلِ نظر کو اپنی طرف متوجہ کر رہی ہے کہ پھر سے یہاں حق کی آواز گونجنی ہے۔
یہ اذانیں اور سجدے ان غازیوں کی یاد دلاتے ہیں جو کبھی تیری وادیوں میں رہا کرتے تھے۔ اور حق کے لئے انھوں نے جو نیزے اٹھا رکھے تھے انکی بلندی اور چمک آسمان کے ستاروں کے مانند تھی جو ظلم کی شبِ تاریک میں روشنی کی امید تھے۔
اے سر زمین اسپین! اگر تیری خوبصورتی اور سرخی میں کمی ہو گئی ہے تو آج بھی مسلم امت میں قربانی کا اتنا جذبہ موجود ہے کہ وہ تیری خاک کو دوبارہ اپنے لہو سے سرخ کرنے کو تیار ہے۔ یعنی تیری حرمت آج بھی ہمارے دلوں اتنی ہی ہے اور ہم تیری حرمت پر مر مٹنے کو تیار ہیں۔
علامہ اقبال مسلمانوں کو احساسِ کمتری سے نکالنے اور انکی ہمت بڑھاتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ اگرچہ مسلمانوں کے اندر وہ جوش و جذبہ موجود نہیں ہے جو انکے اسلاف میں تھا اسکے باوجود وہ باطل کی سازشوں اور طاقت سے دبنے والے نہیں ہیں، وہ ناسازگار حالات کو سازگار بنا سکتے ہیں۔
آخری دو اشعار میں اقبال اپنا دردِ دل بیان کر رہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ میں نے اسپین میں الحمرا کے علاوہ غرناطہ اور اسکی مسجد کو بھی دیکھا ہے لیکن مجھ مسافر کو نہ تو وہاں رہ کر سکون ملا اور نہ ہی واپس آکر سکون ملنے والا ہے۔
میں نے ہسپانیہ میں مسلمانوں اور انکی باقیات کے بارے میں بہت کچھ دیکھا اور سنا ہے اور لوگوں کو بھی بہت کچھ دکھانا اور سنانا ہے، لیکن ان سب سے میرے دل کو تسلی نہیں ملنے والی۔ کیونکہ جو کچھ ہم نے کھویا ہے اس کا غم بہت بڑا ہے، وہ محض سنانے اور بیان کرنے سے ہلکا نہیں ہونے والا۔