ڈاکٹر علامہ اقبال کے آباءواجداد کشمیر سے آکر سیالکوٹ میں آباد ہو گئے تھے جو سپر گوت کے برہمن تھے اور آج سے ڈھائی سو سال پہلے مسلمان ہو گئے تھے ۔ڈاکٹر محمد اقبال اسی خاندان کے چشم و چراغ تھے۔ ڈاکٹر محمد اقبال کے والد شیخ نور محمد بڑے نیک اور اللہ والے بزرگ تھے ۔سیالکوٹ میں ان کا چھوٹا سا کاروبار تھا وہ سارے شہر میں نیکی اور پرہیزگاری کی وجہ سے ہر دل عزیز تھے۔
نور محمد کے دو بیٹے تھے۔عطا اور محمد اقبال،یہی اقبال ہیں جو آگے چل کر ایشیا کے سب سے بڑے شاعر مانے گئے۔ اقبال 1877 میں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے ۔ نور محمد نے اپنے بچوں کو اردو ،فارسی اور انگریزی تعلیم دلوائی۔ شیخ عطا جو اپنے چھوٹے بھائی سے چودہ برس بڑے تھے انجینئر بن گئے اور اقبال مشن اسکول میں تعلیم پا کر کالج میں داخل ہو گئے۔
شیخ نور محمد کے دوستوں میں مولوی میر حسن نامی ایک بڑے عالم تھے جو مشن اسکول میں عربی پڑھایا کرتے تھے، انکے پڑھانے میں ایک خاص بات یہ تھی کہ جو کچھ بتا دیتے وہ دلوں پر نقش ہو جایا کرتی تھی۔ ان کی زیرِ نگرانی علامہ نے عربی و فارسی کی تعلیم حاصل کی.
اقبال ابھی اسکول میں پڑھتے ہی تھے کہ ان کی طبیعت کے اصلی جوہر چمکنے لگے اور انہوں نے شاعری کی طرف طوجہ کی۔ مولانا روم کے شعر اقبال کو نہایت پسند تھے آپ نے اس زمانے میں اپنا کلام حضرت داغ دہلوی کو بغرض اصلاح بھیجنا شروع کر دیا۔ حضرت داغ ڈاک کے ذریعہ آپ کے کلام کی اصلاح کر کے انکی حوصلہ افزائی کرتے تھے اور ایک خط میں انھوں نے کہا کہ اب اصلاح کی ضرورت باقی نہیں رہی۔
پرائمری،مڈل اور انٹرکے امتحانوں میں آپ نے نمایا کامیابی حاصل کی بلکہ وظائف بھی ملنے لگے، جب سیالکوٹ میں کالج بن گیا تو اس میں داخل ہو گئے اور مولوی میر حسن سے عربی اور فارسی پڑھتے رہے۔ محنت کر کے آپ نے عربی اور فارسی میں خاصی لیاقت پیدا کر لی. سیالکوٹ میں ایف اے کا امتحان پاس کر کے سلسلئہ تعلیم کو جاری رکھنے کے لئے لاہور پہونچے اور گورنمنٹ کالج میں داخل ہو گئے، اس کالج میں آرنالڈ نامی ایک لائق و فائق اور ہمدرد پروفیسر تھے جو اقبال سے بڑی محبت اور شفقت سے پیش آیا کرتے تھے۔ لاہور میں مشاعرے بھی ہوتے تھے جن میں اس زمانے کے مشہور شعراء اپنا کلام سناتے تھے. اقبال بھی ان محفلوں میں جانے لگے اور اپنا کلام سنانے لگے. آہستہ آہستہ سب کی نظریں ان پر پڑنے لگیں ان کی عمر 22 سال کی تھی کہ لاہور کے ایک مشاعرہ میں انہوں نے ایک غزل پڑھی اس مشاعرے میں مرزا ارشد گرڑگانی بھی تھے جو ان دنوں چوٹی کے شاعروں میں گنے جاتے تھے جب اقبال نے یہ شعر پڑھا:
تو مرزا ارشد تڑپ اتھے اور کہنے لگے میاں صاحبزادے سبحان اللہ! اس عمر میں یہ شعر!
اقبال بی۔اے۔ میں کامیاب ہوئے انگریزی اور عربی میں اول آنے پر انہیں سونے کے دو تمغے بھی ملے۔ بی اے کے بعد آپ نے ایم۔ اے کے امتحان میں نمایاں کامیابی حاصل کی اور ایک سونے کا تمغہ انعام میں ملا. آپ پہلے جونیئر پروفیسر اور پھر یورپ سے لوٹنے کے بعد گورمنٹ کالج لاہور میں فلاسفی کے پروفیسر مقرر ہوئے جس زمانے میں وہ کالج میں پڑھتے تھے ان کی شاعری کی دھوم مچ گئی تھی۔1899 ء میں انجمن حمایت اسلام کے جلسہ میں آپ نے “نالہ یتیم” کے عنوان سے ایک درد انگیز نظم پڑھی جس سے سننے والوں کے دل بے چین ہو گئے اور حاضرین کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو ٹپک پڑے۔ اس کے بعد آپ نے ہمالہ ،ہندوستاں ہمارا وغیرہ نظمیں لکھیں جو ہندوستان میں پسند کی گئیں۔
ان دنوں لاہور سے شیخ عبد القادر ‘مخزن’ نامی ایک ماہوار رسالہ شائع کرتے تھے۔ سب سے پہلے اقبال کے اشعار اس رسالہ میں شائع ہونے لگے اقبال اور شیخ عبد القادر میں بڑا میل جول تھا۔
ان دنوں ان کا معمول یہ تھا کہ صبح اٹھ کر نماز اور نماز کے بعد اونچی آواز سے قرآن شریف پڑھتے تھے۔ پھر ورزش کرتے ۔کالج کا وقت ہو جاتا اور وہ کچھ کھائے پئے بغیر کالج چلے جایا کرتے تھے اور دوپہر کو آکر کھایا کرتے تھے. عام طور پر وہ کھانا صرف ایک وقت کھایا کرتے تھے۔ ایک دفعہ پورے دو مہینے رات کو اٹھ کر تہجد کی نماز پڑھتے رہے۔
سن 1905 ء میں علامہ یورپ کے لئے روانہ ہو گئے ۔اقبال انگلستان پہنچ کر کیمبرج یونیورسٹی میں داخل ہو گئے اور فلسفہ کی تعلیم حاصل کر نے لگے۔ کیمبرج میں فلسفہ کا امتحان پاس کر کے آپ نے ایران کے فلسفہ کے متعلق ایک کتاب لکھی جس پر جرمنی کی میونخ یونیورسٹی نے آپ کو پی۔ایچ ڈی۔ کی ڈگری عطا کی. جرمنی سے واپس آکر آپ نے لندن میں بیرسٹری کا امتحان پاس کیا ان دنوں میں پروفیسر آرنلڈ لندن یونیورسٹی میں عربی کے پروفیسر تھے جب وہ رخصت پر گئے تو اقبال چھ ماہ تک ان کی جگہ عربی پڑھاتے رہے۔
اقبال نے یورپ پہنچ کر ایک نئی دنیا دیکھی جو ان کے لئے بالکل نئی تھی، یورپ والوں کی تہذیب میں ان کوخوبیاں بھی نظر آئیں اور برائیاں بھی۔ ان کی ظاہری بھڑک تو آنکھوں کو چکا چوند کر دیتی تھی مگر جب شاعر نے ٹٹولا تو اندر سے کھوکھلا پایا۔ ان کے دل پر بڑی چوٹ لگی کہ اگر سب انسان ایک ہی کنبہ کے لوگ ہیں تو پھر ان میں اتنا فرق کیوں ہے یہ لوٹ کھسوٹ کب تاک جاری رہےگی اور کیا انسان کی زندگی کا مقصد یہی ہونا چاہئے جو یورپ کی قوموں کے سامنے ہے۔
ولایت سے واپس آکر انہوں نے اردو میں بہت سی نظمیں لکھیں لیکن اب فارسی کی طرف انکی توجہ زیادہ ہو گئی. کچھ عرصہ تک انہوں نے اردو میں شعر کہنا ہی چھوڑ دیا تھا لیکن زندگی کے آخری سالوں میں پھر کہیں اردو کی طرف توجہ کی، اردو کو چھوڑ کر فارسی میں شعر کہنے کی دو وجہیں تھیں۔ ایک تو فارسی زبان شاعری کے لئے بہت موزوں ہے۔ اور دوسرے اب اقبال کی شاعری کا رنگ بدل گیا تھا، وہ کہتے تھے کہ میں صرف ہندوستان کے لئے نہیں بلکہ پوری دنیا کے مسلمانوں کے لئے شعر کہتا ہوں اور فارسی کے سوا کوئی زبان ایسی نہیں ہے جس کے ذریعہ اپنے خیالات دوسرے ممالک کے مسلمانوں تک پہونچا سکوں۔
سن 1908 میں علامہ ولایت سے ہندوستان واپس آئے اور گورنمنٹ کالج میں پڑھانے لگے جہاں آپ کو پانچ سو روپیئے تنخواہ ملتی تھی، آپ کو وکالت کرنے کی بھی اجازت تھی۔
ڈاکٹر اقبال کو یورپ سے آئے دو ڈھائی سال ہوئے تھے کہ اطالیہ نے ترکی سے طرابلس چھین لیا۔ یہ زخم ابھی تازہ تھا کہ بلقان کی عیسائی ریاستوں نے جو مدت سے ترکی کی ماتحت تھیں، بغاوت کر دی علامہ اقبال کی طبیعت پر ان واقعات کا بہت گہرا اثر پڑا۔ چنانچہ انہوں نے اس زمانے میں شکوہ لکھا، جو ان نظموں میں بہت مشہور ہے کہ پہلے پہل علامہ نے اس نظم کو انجمن حمایت الاسلام کے جلسے میں پڑھا تو ان کی درد میں ڈوبی ہوئی آواز سامعین کے دلوں میں اس طرح نشتر گھنگھولنے لگی کہ آہوں اور سسکیوں کے سوا سارے جلسہ میں کچھ اور نہیں سنائی دیتا تھا۔ اقبال نے بہت سی اچھی نظمیں لکھی لیکن شکوہ سے زیادہ ان کی کوئی اور نظم مقبول نہیں ہوئی۔
ڈاکٹر اقبال نے ڈھائی سال ملازمت کرنے کے بعد یکا یک استعفا دے دیا کیونکہ وہ اپنے خیالات آزادی سے ظاہر نہیں کر سکتے تھے. اب آپ نے بیرسٹری کی طرف زیادہ توجہ کی لیکن مال و دولت کمانے کا ان کا زیادہ شوق نہیں تھا اس لئے صرف اتنے ہی مقدار سے لیتے تھے جن کی آمدنی سے انکا خرچ پورا ہوجاتا تھا۔
سن 1914 ء میں پہلی جنگِ عظیم شروع ہوئی ان دنوں اقبال کے دل میں ایسی خیالات موجزن تھے جنہیں اردو میں پوری طرح ظاہر کرنا مشکل معلوم ہوتا تھا اس لئے آپ فارسی میں شعر کہنے لگے۔ فارسی میں جو باتیں انہوں نے کہیں ہیں وہ اس لحاظ سے بالکل نئی ہیں کہ یورپ یا ایشیا کے کسی شاعر نے انہیں چھوا تک نہیں فارسی میں آپنے اسرار خودی اور رموزِ بےخودی لکھ کر حضرت انسان کی پوزیشن اور ان کے معیار کو بلند و بالا بنا دیا ہے۔ اگلے زمانے کے بہت سے شاعروں نے یہی سمجھ رکھا تھا کہ انسان کو اپنی خودی بالکل مٹا دینی چاہئے۔اس قسم کے خیالات سب سے پہلے یونان میں پیدا ہوئے اور جب مسلمانوں نے یونانی کتب کا عربی میں ترجمہ کیا تو یہ باتیں مسلمانوں میں بھی پیوست ہو گئیں. ان کا خیال تھا کہ انسان کو ہاتھ پاؤں پھیلانے کی ضرورت نہیں اسے صرف خدا پر بھروسہ کر کے گوشہ نشینی اختیار کر لینی چاہئے، اگر کوئی شخص زندگی پانا چاہتا ہے تو اسے چاہئے کہ اپنے آپ کو فنا کر ڈالے اس قسم کے خیالات نے مسلمانوں کو کاہل اور بے عمل بنا دیاہے۔ اقبال نے اسرار خودی مین اس قسم کے خیالات کی سخت مخالفت کی ہے۔
اقبال کے اشعار قرآن شریف کی سچی تعلیم کے علمبردار ہیں وہ کہتے ہیں کہ اپنے آپ کو پہچانو، دنیا جو کچھ بھی ہے وہ سب کچھ تمہارے لئے ہے۔دل سے ڈر اور خوف نکال دو۔ دریاؤں میں کود پڑو ۔لہرون سے لڑو، چٹانوں سے ٹکرا جاؤ، کیونکہ زندگی پھولوں کی سیج نہیں میدانِ جنگ ہے۔
سن1926ء میں وہ لاہور کے حلقہ سے کونسل ممبری کے لئے کھڑے ہو کر کامیاب ہو گئے۔ 1928 ء میں انہیں مدراس سے لیکچر دینے کے لئے بلاوا آیا۔ وہاں انکا شاندار استقبال کیا گیا۔ مدراس سے وہ میسور اور حیدرآباد تشریف لے گئے۔میسور اور حیدرآباد میں لوگوں نے بڑی دھوم دھام سے آپ کا خیر مقدم کیا۔ 1930 ء میں مسلمانوں کی پرانی انجمن مسلم لیگ نے آلہٰ آباد میں اپنا سالانہ جلسہ کیا۔ ڈاکٹر اقبال اس جلسہ کے صدر چنے گئے، اس موقع پر جو آپنے تقریر کی اس میں پاکستان کی تشکیل کے متعلق اشارے کئے گئے تھے۔
ڈاکٹر اقبال کچھ عرصہ بھائی دروازہ میں رہے پھر وہاں سے انارکلی چلے آئے وہاں کوئی نو دس سال رہے۔ انارکلی میکلوروڈ پر ایک کوٹھی میں کوئی چودہ سال گذار دیے. انتقال سے کوئی تین سال پہلے انہوں نے میوروڈ پر اپنی خاص کوٹھی بنائی تھی جس کا نام جاوید منزل رکھا گیا تھا۔
جب وہ لاہور تشریف لائے تھے صرف شیخ محمد اقبال تھے۔ ولایت سے واپس آئے تو ڈاکٹر اقبال کہلانے لگے۔ حکومت ہند نے ان کو سر کا خطاب عطا کیا تو آپ نے استاد مولوی میر حسن کو شمس العلماء کا خطاب دلوایا لیکن قوم نے انہیں علامہ اقبال کے نام سے موسوم کیا باوجود ان تمام خطابات وغیرہ کے وہ ایک سیدھے سادے درویش صفت انسان تھے انہوں نے خود اپنے آپ کو اکثر شعروں میں فقیر اور درویش کہا ہے اور اس پر فخر بھی کیا ہے۔
اقبال کو دنیا داری کے ڈھنگ نہیں آتے تھے، جو بات دل میں ہوتی تھی بلا جھجک صاف صاف کہہ دیتے تھے خواہ کسی شخص کی کیسی ہی بڑی پوزیشن کیوں نہ ہو. ایک دفعہ دلی میں وائسرائے سے ملاقات ہوئی وائسرائے نے آپ کو دوسرے دن دعوت دی لیکن آپ نے اپنی مصروفیت کی بنا پر دوسرے دن دعوت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اس لئے وائسرائے نے مجبور ہو کر اسی دن انکی دعوت کا انتظام کیا۔
اب ذرا ان کے لباس کا بھی حال سن لیجئے ابتدا ء میں وہ شلوار اور کرتہ پہنتے تھے سر پر سفید پگڑی ہوتی تھی۔ ولایت جا کر انہیں انگریزی لباس بھی پہننا پڑا۔ لیکن وہ ولایت سے آنے کے بعد عام طور پر شلوار قمیص اور فراک کوٹ کے ساتھ ترکی ٹوپی پہنا کرتے تھے۔ کبھی کبھی پتلون پہن لیتے تھے تو اس کے ساتھ ہیٹ کی جگہ ترکی ٹوپی ہوتی تھی۔وہ انگریزی لباس کو پسند نہیں کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ مجھے پتلون کہ بہ نسبت شلوار زیادہ پسند ہے۔
علامہ اقبال نے مدت سے شعر کہنا چھوڑ دیا تھا زندگی کے آخری حصہ میں انہوں نے اردو کی طرف توجہ دی. بالِ جبریل اور ضربِ کلیم انکی کلیات میں سب سے اونچا درجہ رکھتی ہیں. اقبال نے اپنی کتابوں میں صرف مسلمانوں سے خطاب کیا ہے۔جاوید نامہ اور بالِ جبریل میں انہوں نے ساری دنیا کے غریبوں کو پیغام دیا ہے۔ مذکورہ بالا دونوں کتابوں کو غور سے پڑھو تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ زمین کو خدا کی ملکیت سمجھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ سارے انسان ایک کنبہ کے لوگوں کی طرح مل جل کر رہیں زمین کی خاطر ایک دوسرے سے لڑیں جھگڑیں نہیں۔
ڈاکٹر صاحب کو کچھ عرصہ سے درد گردہ کا مرض تھا ہر چوتھے پانچویں سال اس درد کے دورے پڑتے تھے. 1924 ء میں عید کی نماز پڑھ کر آئے اور کچھ کھانے پینے کے بعد فوراً ان کی آواز بیٹھ گئی۔ بہتر سے بہتر علاج کیا لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا، جس کی وجہ سے ہائی کورٹ کا جانا بند ہو گیا۔ نواب صاحب بھوپال نے آپ کی مالی مشکلات کی مدِ نظر آپ کے نام ماہوار پانچ سو روپیوں کا وظیفہ جاری کر دیا جو وفات تک ان کو برابر ملتا رہا۔
جنوری 1938 ء یعنی انکی وفات سے سوا چار مہینے پہلے ہندوستان میں جگہ جگہ یومِ اقبال بڑی دھوم سے منایا گیا. اس موقع پر لوگوں نے علامہ اقبال سے جس قدر عقیدت اور محبت ظاہر ک اسے دیکھ کر کہنا پڑتا ہے کہ کسی شاعر کی زندگی میں اسکی ایسی قدر نہیں ہوئی ہوگی۔
سن1935 ء میں ان کی بیگم صاحبہ کا انتقال ہوا اس واقعہ نے ان کے دل پر بہت گہرا اثر ڈالا۔ چنانچہ ایک دن اکیلے بیٹھ کر وصیت لکھی اور رجسٹرار کے پاس بھیج دی۔ وفات سے کوئی سال بھر پہلے انکی آنکھوں میں موتیا بند اتر آیا، کچھ دنوں بعد سانس پھولنے لگی. آپ کو معلوم ہو چکا تھا کہ ان کو عنقریب وصال حق نصیب ہونے والا ہے، چنانچہ دسمبر ١٩٣٧ ء میں علامہ نے یہ رباعی کہی تھی جو ان کی شدید بیماری کے موقعہ پر آپکی زبان پر تھی۔
سن 1937 ء میں آپکی طبیعت زیادہ بگڑنے لگی، قلب بہت کمزور ہو گیا تھا۔ دہلی کے مشہور طبیب نابینا صاحب اور حکیم محمد حسن قریشی پرنسپل طبیہ کالج علاج کرتے تھے۔
سن آپ کے بڑے بھائی شیخ عطا نے آپ کی بگڑی حالت کو دیکھ کر دو چار کلمات کہے مگر علامہ اقبال کہنے لگے بھائی میں مسلمان ہوں موت سے نہیں ڈرتا ۔پھر آپ نے یہ شعر پڑھا:
آخر کار علامہ نے 21 اپریل ،1938 ء کو انتقال کیا۔ وفات کے وقت آپ کی عمر 65 سال سے اوپر تھی۔