پہلا بند
اے نوجوانوں! بیاباں کی ہوا اور صحرا کی فضا شہروں کی ناپاک اور مسموم آب و ہوا سے بدر جہاں بہتر ہے، شہروں کا حسن پروردۂ غازہ یعنی نقلی ہوتا ہے لیکن صحرا کا حسن پروردۂ فطرت یعنی اصلی ہوتا ہے اس لئے میری دعا ہے کہ اس دیار کی فضا تم کو راس آئے۔ دلی اور بخارا سے مراد ہیں وہ شہر جن میں تہذیبِ مغرب کی لعنت سے مے و قمار بازی، زنانِ بازاری کی افراط ہو اور عقائد و نظریات کو مسمار کرنے کوشش ہو۔
دوسرا بند
اے نوجوانوں! تم اپنے اندر سیلاب کی صفت پیدا کرو ۔ جب تیرے اندر یہ شان پیدا ہو جائے گی تو تجھے معلوم ہوگا کہ کشمیر کی وادی بھی میری ہی ہے اور ترکستان اور تاجیکستان بھی میرا ہی ہے۔ اپنے اندر دنیا کو فتح کرنے یعنی سیلِ رواں کی صفت پیدا کرو۔
تیسرا شعر
ایک مومن اور باغیرت نوجوان کبھی اپنے مقصد اور منزل میں ناکام نہیں ہو سکتا کیونکہ غیرت و حمیت اس دنیا کی بہت قیمتی شئے ہے، جو انسان کو دنیا سے بےنیاز کرتی ہے اور اس کی قدر و منزلت ایک شہنشاہ سے بھی بڑھ کو ہو جاتی ہے۔
چوتھا بند
اے نوجوان ! یہ تمام خوبیاں صرف اس شخص میں پیدا ہو سکتی ہیں جو شیشہ کو سنگِ خارا یعنی اپنی خودی کو ، جو شروع میں کانچ کی طرح کمزور ہوتی ہے، پتھر کی طرح سخت بنا لے۔ لیکن یہ ہنر آرٹ کاونسل یا کسی کالج یونیورسٹی میں نہیں سکھایا جاتا، اگر تو خودی کو مستحکم کرنا چاہتا ہے تو کسی کامل (مردِ مومن) کی صحبت اختیار کر۔
پانچواں شعر
اے نوجوان ! اس حقیقت کو ذہن نشین کر لے کہ قوم کی تقدیر یعنی مستقبل میں اس کی ترقی تیری جدوجہد پر موقوف ہے جیسے افراد ہوں گے ویسے ہی قوم بھی ہوگی، اس لیے تجھے اپنی زندگی قوم کی ترقی کے لئے وقف کر دینی چاہیے اور یہ سمجھنا چاہئے کہ اگر میں غفلت سے کام لوں گا تو میری قوم تباہ ہو جائے گی۔
چھٹاں شعر
جو غواض(غوطہ خور) ساحل پر بیٹھا رہتا ہے وہ کبھی دریا کی گہرائیوں اور پہنائیوں سے موتی نکال کر نہیں لا سکتا، اسی طرح جو مسلمان نوجوان اپنی زندگی ہوٹل اور کلب میں بسر کرتا ہے اور استحکامِ خودی اور مومنانہ صفات کے لئے کوشش نہیں کرتا وہ نہ خود کبھی ترقی کر سکتا ہے اور نہ اس کے وجود سے قوم کو کوئی فائدہ و نفع حاصل ہو سکتا ہے۔
ساتواں شعر
اے نوجوان ! اس صداقت کو اپنے دل میں بیٹھا لو کہ اگر تو دین کو قربان کر کے ملت اور قوم کی آزادی حاصل کروگے تو اس سودے میں تمہیں سراسر نقصان ہوگا۔ بیشک آزادی حاصل کرنے کے لئے کوشش کر لیکن دین کے اصول و عقائد سے سمجھوتا اور مداہنت کر کے آزادی کو قبول نہ کر۔
اس میں علامہ نے نوجوانوں کو اس حقیقت سے آگاہ کیا ہے کہ اگر وطنیت اور دوسرے باطل نظریات کو قبول کر کے بھی تمہیں آزادی مل گئی تو کیا فائدہ جب تم مسلمان ہی نہ رہے تو آزادی کا کیا فائدہ۔
آٹھواں شعر
اے نوجوان! اس وقت دنیا میں اسلام(روح) اور وطنیت و مادیّت(بدن) کے مابین زبردست جنگ برپا ہے، تہذیبِ مغرب جس کی بنیاد مادہ پرستی ہے اسلام کو مٹانے پر تلی ہوئی ہے۔
اقبال نے اقوام یورپ کے نظریات کو پیش کرنے والوں اور نافذ کرنے والوں کو درندوں سے تعبیر کیا ہے کیونکہ اس کی تہذیب کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ انسان اپنی عادات کے اعتبار سے حیوان بن جاتا ہے چنانچہ دوسری جنگِ عظیم نے اس کو واضح کر دیا۔
نواں شعر
اے نوجوان! اس وقت یزداں اور اہرمن(اسلام اور کفر) میں شدید مقابلہ ہو رہا ہے۔ابلیس یعنی یورپ کو اپنے مادّی وسائل پر ناز ہے اور اللہ یعنی اسلام کو مومنوں پر بھروسہ ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ ایمان کی قوت ہمیشہ مادی وسائل پر غالب آجاتی ہے۔ چنانچہ اسی قوت کی بدولت مسلمانوں نے بدر و خندق اور دوسرے بہت سارے معرکے سر کئے۔
دسواں شعر
یہ سچ ہے کہ کوئی شخص قبل از وقت نہیں بتا سکتا کہ فتح کس کی ہوگی لیکن اگر تُو اپنی مومنانہ فراست سے کام لے تو تجھے معلوم ہو سکتا ہے کہ آخر میں ہمیشہ حق ہی کا بول بالا ہوتا ہے۔
گیارہواں شعر
پس اے نوجوان! تو اس نازک وقت میں اپنے بزرگوں کے طرزِ عمل کو سامنے رکھ اور ان کے نقشِ قدم پر چل مجھے یقین ہے کہ تو ضرور کامیاب ہوگا۔ یہ حافظ شیرازی کی غزل کا مشہور مصرعہ ہے شاہاں سے یہاں بزرگانِ دین کی طرف اشارہ ہے یعنی اگر مسلمان سلف صالحین کی اتباع کریں گے تو فضل ایزدی ضرور ان کے شامل حال ہوگا۔