The Anthem of Islamic Community/ترانہ ملی

ترانہ ملی


پہلا بند
چین و عرب ہمارا ، ہندوستاں ہمارا
مسلم ہیں ہم ، وطن ہے سارا جہاں ہمارا

شرح

ہم مسلمان ہیں اور اسلام  کی تعلیم یہ ہے کہ تمام مسلمان خواہ وہ دنیا کے کسی بھی حصہ میں رہتے ہوں، ایک مستقل قوم ہیں کیونکہ ان کی وطنیت  کی بنیاد قومیت پر نہیں ہے بلکہ عقیدۂ  توحید پر ہے اس لئے کوئی خاص ملک ہمارا وطن نہیں ہے بلکہ ساری دنیا ہمارا وطن ہے ۔


دوسرابند
توحید کی امانت سینوں میں ہے ہمارے
آساں نہیں مٹانا نام و نشاں ہمارا

شرح

چونکہ ہم عقیدہ توحیدِ الہی کے حامل اور اس کے امین ہیں اور یہ عقیدہ حقیقتِ ابدی ہے ، دنیا کی کوئی طاقت اس عقیدہ کو نہیں مٹا سکتی اس لئے ہم بھی نہیں مٹ سکتے۔


تیسرا بند
دنیا کے بت کدوں میں پہلا وہ گھر خدا کا
ہم اس کے پاسباں ہیں، وہ پاسباں ہمارا

معنی
پہلا گھر:خانہ کعبہ۔

شرح

کعبہ دنیا میں خدائے واحد کی عبادت کا پہلا گھر ہے ، ہم اس کے نگہبان ہیں جب تک کعبہ موجود ہے مسلمان موجود رہیں گے اور جب تک مسلمان زندہ ہیں کعبہ بھی برقرار رہےگا ، یہ دونوں لازم و ملزوم ہیں۔


چوتھا بند
تیغوں کے سائے میں ہم پل کر جواں ہوئے ہیں
خنجر ہلال کا ہے قومی نشاں ہمارا

شرح

مسلمانوں نے اپنی دین کی عظمت قائم رکھنے  لے لئے ہمیشہ جہاد کیا ہے ہم بجا طور پر کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے تلواروں کے سائے میں پرورش پائی ہے چناچہ ہمارا قومی نشان بھی ہلال (چاند)ہے جو تلوار سے مشابہ ہے۔


پانچواں بند
مغرب کی وادیوں میں گونجی اذاں ہماری
تھمتا نہ تھا کسی سے سیل رواں ہمارا

شرح

ہم نے مغرب میں مراقش اور اندلس تک فتوحات کی ہیں اور اسکی فضاؤں نے اسلام کی حقانیت کی صدائیں سنی ہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ جب ہم تسخیرِ ممالک کے لئے نکلے تو دنیا کی کوئی طاقت ہمارے سیلاب کو نہ روک سکی۔


چھٹاں بند
باطل سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم
سو بار کر چکا ہے تو امتحاں ہمارا

شرح

اے دنیا والوں! یاد رکھو ہم مسلمان باطل سے مرعوب نہیں ہو سکتے ، باطل بار بار ہمارے مقابلہ میں آچکا ہے لیکن ہمیں مغلوب نہیں کر سکا ہے اور خود آسمان  بارہا اس کا مشاہدہ کر چکا  ہے۔


ساتواں بند
اے گلستان اندلس! وہ دن ہیں یاد تجھ کو
تھا تیری ڈالیوں پر جب آشیاں ہمارا

شرح

تاریخ گواہ ہے کہ ہم نے اندلس اور بغداد میں عظیم الشان حکومتیں قائم کیں اور دنیا کو علوم و فنون اور تہذیب وتمدن کی دولت سے مالا مال کر دیا  تھا اور ہم بھی کبھی ان آشیانوں میں بلبل کے مانند  نغمہ سرا ہوا کرتے تھے۔


آٹھواں بند
اے موج دجلہ! تو بھی پہچانتی ہے ہم کو
اب تک ہے تیرا دریا افسانہ خواں ہمارا

شرح

اور دنیا سے یہ حقیقت بھی پوشیدہ نہیں ہے کہ ہم نے اسلام کی سر بلندی کے لئے اپنا خون پانی کی طرح بہایا، عراق   کا ذرّہ ذرّہ اس صداقت پر گواہی دے سکتا ہےکہ اسلام  کی دعوت اور اسکے مشن کو ہم اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں۔


نواں بند
اے ارض پاک! تیری حرمت پہ کٹ مرے ہم
ہے خوں تری رگوں میں اب تک رواں ہمارا

شرح

علامہ اس شعر میں حجاز کی مقدس سرزمین کو مخاطب کر تے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ تیری پاک سر زمین کی   ہم نے اپنے خون سے آبیاری کی ہے  اور تیری رگوں میں بہنے والے خون کا  ایک ایک قطرہ    اس بات کا گواہ ہے۔


دسواں بند
سالار کارواں ہے میر حجاز اپنا
اس نام سے ہے باقی آرام جاں ہمارا

شرح

سرورے دو عالم ﷺ ہمارے آقا اور پیشوا ہیں اور حضور اقدس ﷺ کا نامِ پاک ہر مسلمان کے حق میں باعثِ تسکینِ جان ہے۔


گیارہواں بند
اقبال کا ترانہ بانگ درا ہے گویا
ہوتا ہے جادہ پیما پھر کارواں ہمارا

شرح

اقباؔل کا ترانہ مسلمانوں کے لئے گویا “بانگِ درا”  ہے یعنی  غفلت میں پڑے ہوئے مسلمانوں کے لئے سربلندی اور برتری کے حصول کا پیغام ہے اور اگر ہم نے بیداری کا ثبوت دیتے ہوئے کارِ جہاں میں متحرک ہوئے تو  خدا کے فضل وکرم سے ہم ضرور اپنی منزلِ مقصود کو پہونچیں گے ۔