رات اور شاعر
یہ بظاہر ایک نظم ہے لیکن دراصل علامہ نے قوم کی بےحسی کا مرثیہ لکھا ہے۔بنیادی تصور یہ ہے کہ رات کا وقت ہے ساری دنیا سو رہی ہے لیکن میں جاگ رہا ہوں ،کیوں؟اس لئے کہ رات کے وقت برکاتِ خداوندی کا نزول ہوتا ہے لیکن افسوس کہ میری قوم کے افراد اس وقت سو رہے ہیں اور فیضان سماوی سے محروم ہیں۔
رات
کیوں میری چاندنی میں پھرتا ہے تو پریشاں
خاموش صورت گل، مانندِ بُو پریشاں
تاروں کے موتیوں کا شاید ہے جوہری تو
مچھلی ہے کوئی میرے دریائے نور کی تو
یا تو مری جبیں کا تارا گرا ہوا ہے
رفعت کو چھوڑ کر جو بستی میں جا بسا ہے
خاموش ہو گیا ہے تارِ ربابِ ہستی
ہے میرے آئنے میں تصویرِ خوابِ ہستی
دریا کی تہ میں چشمِ گرادب سو گئی ہے
ساحل سے لگ کے موجِ بے تاب سو گئی ہے
بستی زمیں کی کیسی ہنگامہ آفریں ہے
يوں سو گئی ہے جیسے آباد ہی نہیں ہے
شاعر کا دل ہے لیکن ناآشنا سکوں سے
آزاد رہ گیا تو کیونکر مرے فسوں سے؟
معنی
پریشاں: منتشر یا پھیلا ہوا۔
مجازی: وہ شخص جس کو اطمینان حاصل نہ ہو۔
تارِ رُباب: سارنگی (موسیقی کا آلہ) کا تار ۔
چشمِ گرداب:بھنور کی آنکھ (بھنور کا مرکز) ۔
ہنگامہ آفریں: واہ واہی یا شاباشی کا شور۔
فسوں: جادو۔پہلے زمانے میں جادوگر لوگوں کو جادو کر کے انہیں مدہوش کردیا کرتے تھے۔ اس لئے شاعر نے اسے جادوگر فرض کر کے فسوں ثابت کیا ہے۔
شرح
رات نے شاعر سے دریافت کیا کہ تو اس وقت جبکہ ساری دنیا سو رہی ہے گل کی طرح خاموش اور خوشبو کی طرح پریشان کیوں پھر رہا ہے؟ شاید تو تاروں کے حسن سے لطف اندوز ہونا چاہتا ہے یا چاندنی سے مسرت حاصل کرنے کا آرزومند ہے یا تو کوئی آسمانی مخلوق ہے اور کسی وجہ سے آسمان چھوڑ کر دنیا میں آگیا ہے۔ مطلب یہ کہ تو دنیا کا باشندہ تو معلوم نہیں ہوتا کیونکہ دنیا کے لوگ تو اس وقت سو رہے ہیں بلکہ انسان کا تو ذکر ہی کیا اس وقت تو دریا بھی ساکن ہے بلکہ ساری کائنات ساکن ہے،لیکن تو سکون سے ناآشنا ہے کیا بات ہے کہ میرا جادو تجھ پر نہ چل سکا۔
شاعر
میں ترے چاند کی کھیتی میں گُہر بوتا ہوں
چھپ کے انسانوں سے مانندِ سحر روتا ہوں
دن کی شورش میں نکلتے ہوئے گھبراتے ہیں
عزلتِ شب میں مرے اشک ٹپک جاتے ہیں
مجھ میں فریاد جو پنہاں ہے، سناؤں کس کو
تپشِ شوق کا نظّارہ دکھاؤں کس کو
برقِ ایمن مرے سینے پہ پڑی روتی ہے
دیکھنے والی ہے جو آنکھ ، کہاں سوتی ہے!
صفتِ شمعِ لحد مردہ ہے محفل میری
آہ، اے رات! بڑی دور ہے منزل میری
عہدِ حاضر کی ہوا راس نہیں ہے اس کو
اپنے نقصان کا احساس نہيں ہے اس کو
ضبطِ پیغامِ محبت سے جو گھبراتا ہوں
تیرے تابندہ ستاروں کو سنا جاتا ہوں
معنی
گہر: موتی، قیمتی پتھر۔
مانند سحر روتا ہوں: جس طرح شبنم کی شکل میں صبح کے آنسو نکلتے ہیں ۔
عزلت: تنہائی۔
برقِ ایمن: وادئی ایمن ہے جہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے خدا کی تجلّی دیکھی تھی، برقِ ایمن سے مراد تجلّیاتِ نورِ الٰہیہ ہے۔
شمعِ لحد : قبر پہ روشن ہونے والا چراغ۔
تابندہ: روشن، چمکتا ہوا۔
شرح
شاعر جواب دیتا ہے کہ میں اے رات! میں تیرے چاند کی روشنی اپنے آنسوؤں کے موتیوں کی کھیتی سر سبز کرنے کے لئے نکلتا ہوں جس طرح صبح کو شبنم گھاس اور پودوں کو سیراب کرنے آتی ہے۔ یہ میرے دن کی بھاگ دور میں چھپے رہتے ہیں اور تیری تنہاہیوں میں پہنچتے ہیں نکل پڑتے ہیں۔ بہرحال تو رات ہے میرے دردِ دل کو کیا سمجھ سکتی ہے۔آہ! اس وسیع دنیا میں کوئی میرا ہمدم یا ہمراز نہیں ہے، میں اپنا دکھڑا کسے سناؤں؟ اور اپنی سوزشِ قلبی کا نظارہ کسے دکھاؤں؟ اس وقت آسمانی برکات کا نزول ہو رہا ہے لیکن قوم تو سو رہی ہے بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ مردہ ہے۔ چونکہ عہد حاضر نے انسانوں کو مادہ پرستی سکھادی ہے اور میری قوم بھی اس مرض میں مبتلا ہے اس لئے وہ اپنے نقصان کا احساس نہیں کر سکتی۔ میں اپنی قوم کو عشقِ رسولؐ کا پیغام دے رہا ہوں لیکن وہ اس طرف متوجہ ہی نہیں ہوتی۔چونکہ میں اس پیغام محبت کو اپنے سینے میں ضبط نہیں کر سکتا اس لئے جب بیتاب ہوتا ہوں تو اپنے دردِ دل تیرے چمکتے ہوئے ستاروں کو سنانے کی لئے نکل پڑتا ہوں۔