عالمِ برزخ

مردہ اپنی قبر سے

کیا شے ہے، کس اِمروز کا فردا ہے قیامت
اے میرے شبستانِ کہن! کیا ہے قیامت؟

معنی

شے: چیز
امروز:آج
فردا:آنے والا کل۔
شبستان:رات گزارنے کی جگہ، خواب گاہ، رات کی انجمن۔
کہن: پرانا۔

تشریح

مردہ اپنی قبرسے سوال کرتا ہے کہ قیامت کیا چیز ہے اور یہ کس آج  کی ہونے والی کل ہے۔ اے میری قبر، اے میری خواب گاہ قیامت کیا ہے۔


قبر

اے مردۂ صد سالہ! تجھے کیا نہیں معلوم؟
ہر موت کا پوشیدہ تقاضا ہے قیامت

معنی

مردۂ صد سالہ: صدیوں پرانا مردہ۔
پوشیدہ:چھپا ہوا۔
تقاضا: ضرورت، لازمی انجام۔

تشریح

اے صدیوں سے مرے ہوئے مردے! کیا تجھے معلوم نہیں کہ ہر موت کے پیچھے اس کی جو ضرورت ہے یا ہر موت کا جو چھپا ہوا لازمی نتیجہ ہے وہ قیامت ہے یعنی ہر مرنے والے کو ایک دن حساب کتاب دینے کے لئے اٹھنا ہے اس دن کا نام قیامت ہے یہ ایسا دن ہے ہے جو ہر مرنے والے کو پیش آنا ہے۔


مردہ

جس موت کا پوشیدہ تقاضا ہے قیامت
اس موت کے پھندے میں گرفتار نہیں میں

معنی

پوشیدہ: چھپا ہوا۔
پھندہ: جال۔
گرفتار: پھنسا ہوا۔

تشریح

اے قبر جس موت کا چھپا ہوا لازمی نتیجہ یا ضرورت قیامت ہے اس جال میں میں پھنسا ہوا نہیں ہوں۔ میں وہ مردہ  ہوں جو قیامت کے دن بھی اپنی قبر میں سویا رہوں گا۔


ہر چند کہ ہوں مردئہ صد سالہ لیکن
ظلمت کدہ خاک سے بیزار نہیں میں

معنی

ہر چند: اگر چہ۔
ظلمت کدۂ خاک:مٹی کے اندر تاریکیوں کا گھر۔
بیزار: اکتایا ہوا۔

تشریح

اگرچہ مجھے مرے ہوئے صدیاں گزر چکی ہیں لیکن میں اپنے مٹی کے اس تاریک گھر سے جس کا نام قبر ہے اکتایا ہوا نہیں ہوں۔ میں قیامت کے دن بھی اپنے قبر کے گھر کو نہیں چھوڑوں گا۔


ہو روح پھر اک بار سوارِ بدنِ زار
ایسی ہے قیامت تو خریدار ںہیں میں

معنی

بدنِ زار: کمزور اور ضعیف جسم

تشریح

اگر قیامت اس کا نام ہے کہ مرے ہوئے جسموں میں پھر روح داخل کر کے ان کو زندہ کیا جائےگا تو ایسی قیامت سے مجھے کوئی سروکار نہیں، اس کا میں خریدار نہیں کیونکہ مجھے جو لطف قبر کے تاریک خانہ میں روح اور زندگی کے بغیر مل رہا ہے وہ زندہ ہو کر نہیں ملے گا۔ اس کے برعکس یہاں نہ محنت ہے نہ مشقت ہے، بس آرام ہی آرام ہے۔ مجھے دوبارہ زندہ ہونے کی ضرورت نہیں۔


صدائے غیب

نے نصیب مار و کژدُم، نے نصیب دام و دَد
ہے فقط محکوم قوموں کے لیےمرگ ابد

معنی

مار: سانپ، ناگ۔
کژدُم: بچھو، عقرب۔
دَد: درِندہ۔
مرگِ ابد: ہمیشگی کی موت۔

تشریح

مردہ کی بات سن کر غیب سے آواز آتی ہے کہ اے صد سالہ مردے تو زندہ نہیں ہونا چاہتا اور ہمیشہ کی موت سونا چاہتا ہے۔ یہ تو سانپ ، بچھو، درندہ وغیرہ کی بھی قسمت میں نہیں ہے اور تو انسان ہو کر ہمیشگی کی موت سے محبت کر رہا ہے اور مرنے کے بعد پھر زندہ ہونے کے عمل سے اکتایا ہوا ہے۔ معلوم ہوتا ہے تو کسی غلام قوم کا فرد ہے اس لئے دوبارہ زندہ ہونے سے بچ رہا ہے کیونکہ ایسی موت غلام کی ہو سکتی ہے آزاد قوم کی نہیں۔


بانگ اسرافیل ان کو زندہ کر سکتی نہیں
روح سے تھا زندگی میں بھی تہی جن کا جسد

معنی

بانگِ اسرافیل: اسرافیل کی آواز ۔فرشتہ جو قیامت کے دن صور پھوکیں گے۔
تہی: خالی۔
دَد: درِندہ۔
جسد: جسم، بدن۔

تشریح

غلام کی زندگی بھی موت کے برابر ہوتی ہے۔ اس کا جسم روح سے خالی ہوتا ہے، ان معنوں میں کہ وہ زندہ ضرور ہوتا ہے لیکن اس کے جسم و روح پر اس کے آقا کا حکم چلتا ہے۔ وہ ایک زندہ جنازہ ہوتا ہے۔جس مردہ کی زندگی کی یہ صورت ہو اس کو تو اسرافیل کے صور پھونکنے کی آواز بھی نہیں زندہ کر سکے گی۔


مر کے جی اٹھنا فقط آزاد مردوں کا ہے کام
گرچہ ہر ذی روح کی منزل ہے آغوش لحد

معنی

فقط: صرف۔
ذی روح: روح رکھنے والا آدمی یا انسان۔
آغوش لحد:قبر کی آغوش،قبر کی گود۔

تشریح

صدائے غیب ایک قاعدہ، ایک کلیہ، ایک اصول بیان کرتی ہے کہ مرنے کے بعد دوبارہ جینا آزاد لوگوں کی قسمت میں لکھا گیا ہے۔ اگرچہ ہر روح رکھنے والے زندہ آدمی کو ایک نہ ایک دن مر کر قبر کی گود میں جانا ہے، لیکن فرق یہ ہے کہ غلام اس کی گود میں ہمیشہ کے لئے سویا رہے گا لیکن آزاد مر کر پھر جی اٹھے گا۔


قبر (اپنے مردہ سے)

آہ ، ظالم! تو جہاں میں بندۂ محکوم تھا
میں نہ سمجھی تھی کہ ہے کیوں خاک میری سوز ناک

معنی

بندہ محکوم: غلام آدمی۔
خاک:مٹی۔
سوزناک: مرثیہ یا ماتم کرنے والی۔

تشریح

صدائے غیب کو سن کر اور مردے کی دوبارہ زندہ نہ ہونے کی خواہش سن کر قبر چلا اٹھتی ہے کہ اے وہ شخص جو میری گود میں سویا ہوا ہے، تو نے مجھ پر بڑا ظلم کیا ہے کہ غلام ہو کر میری گود میں آرام کرنے کے لئے آگیا ہے۔جب سے تو آیا ہے میری مٹی ماتم کر رہی ہے اور صرف اس لئے یہ مرثیہ خواں ہوئی ہے کہ تو زندگی میں غلام تھا اور میں یہ بات سمجھ نہیں پائی۔


تیری میت سے مری تاریکیاں تاریک تر
تیری میت سے زمیں کا پردئہ ناموس چاک

معنی

میت: لاش، نعش۔
تاریک تر: زیادہ تاریک۔
پردہ ناموس: عزت کا پردہ۔
چاک: پھٹنا۔

تشریح

تیری نعش سے وہ اندھیرا  جو میرے اندر پہلے سے موجود تھا اور بڑھ گیا ہے۔ تیری نعش نے تو زمین کا پردہ عزت بھی پھاڑ دیا ہے۔ تیرے زمین میں آنے سے زمین کی عزت بھی برباد ہو گئی ہے۔


الحذر، محکوم کی میت سے سو بار الحذر
اے سرافیل!اے خدائے کائنات! اے جانِ پاک

معنی

الحذر:الامان، خبردار۔
محکوم:غلام۔

تشریح

قبر کہتی ہے کہ محکوم و غلام لاش سے میں بار بار اللّہ کی پناہ ڈھونڈتی ہوں۔ ہر وقت اللہ کی پناہ مانگو اے قیامت کے روز صور پھونکنے والے فرشتہ تو کہاں ہے۔ جلد صور پھونک تا کہ میری گود اس میت سے خالی ہو جائے۔ اے کائنات کے خدا تو اس مردے سے میری گود کو خالی کر دے اور اس کی جگہ کوئی پاک جان میرے سپرد کر۔کوئی ایسی جان جو غلامی کی آلودگی سے پاک ہو۔


صدائے غیب

گرچہ برہم ہے قیامت سے نظام ہست و بود
ہیں اسی آشوب سے بے پردہ اسرارِ وجود

معنی

برہم: ناراض۔
نظامِ ہست و بود: دنیا کا نظام۔
بے پردہ اسرارِوجود: وجود کے بھید کا ظاہر ہونا۔
وجود: ہستی،زندگی۔
آشوب:ہنگامہ، شورش۔
اسرار: بھید۔
ہست و بود: دنیا جو اس وقت وجود رکھتی ہے اور پہلے عدم تھی اور پھر عدم ہو جائے گی۔

تشریح

اگر چہ قیامت برپا ہونے کے خیال سے دنیا کا نظامِ زندگی و حیات ناراض و رنجیدہ ہے، لیکن اس ہنگامہ سے اس دنیا کے اور اس زندگی کے بھید ظاہر ہو جایئں گے، اور جو کچھ کسی نے اپنی زندگی میں کیا ہے وہ سب کچھ اس کے سامنے آجائے گا اور پرانی زندگی کی جگہ نئی زندگی لے گی۔


زلزلے سے کوہ و در اڑتے ہیں مانند سحاب
زلزلے سے وادیوں میں تازہ چشموں کی نمود

معنی

زلزلہ:بھونچال۔
کوہ: پہاڑ۔
سحاب:بادل۔
وادی:پہاڑوں کے درمیان کا میدان۔
نمود: ظاہر۔

تشریح

صدائے غیب نے بھونچال کی مثال دے کر دنیا اور اس کے بعد کی زندگی کی صورت حال سمجھائی ہے اور کہا ہے کہ بھونچال سے جہاں پہاڑ، گھاٹیاں اور آبادیاں تباہ ہو جاتی ہیں اور وہ بادل کے مانند اڑتی نظر آتی ہیں وہاں پہاڑوں سے چشمے بھی پھوٹ پڑتے ہیں اور ان سے ان کے درمیان کے میدان سیراب ہونے لگتے ہیں اور وہ ہرے بھرے ہو جاتے ہیں۔ قیامت بے شک اس کائنات کو جس میں ہم زندگی گزار رہے ہیں برباد کر دیگی لیکن اس سے ایک نئی دنیا، ایک نئے جہاں اور ایک نئی زندگی کا آغاز ہوگا۔


ہر نئی تعمیر کو لازم ہے تخریب تمام
ہے اسی میں مشکلاتِ زندگانی کی کشود

معنی

تعمیر: آبادی۔
تخریب:تباہی، ویرانی۔
کشود:کھلنا، خوشی سے پھیلنا۔

تشریح

اصول یہ ہے کہ نئی آبادی کے لئے پرانی آبادی کو بالکل ختم کرنا پڑتا ہے۔زندگی کی مشکلات کے حل کے لئے اس کائنات کو ایک نہ ایک دن ختم کرنا اور اس کی جگہ ایک نئی کائنات کو جگہ دینا ضروری ہے۔قیامت برپا ہونے سے انسان کی موجودہ زندگی اور اس کی مشکلات ختم ہو جائیں گی اور اسے اس کی جگہ نئی طرز کی زندگی مل جائے گی، وہ جسے آخرت کی زندگی کہتے ہیں۔


زمین

آہ یہ مرگِ دوام، آہ یہ رزمِ حیات
ختم بھی ہوگی کبھی کشمکشِ کائنات

معنی

مرگِ دوام:ہمیشہ کی موت۔
رزمِ حیات: زندگی کی جنگ
کشمکشِ کائنات: کائنات میں جو کھیچا تانی ہے، زندگی کی جو تگ و دو ہے۔

تشریح

قبر ،مردہ اور صدائے غیب کی ساری باتیں سننے کے بعد زمین کہتی ہے کہ افسوس ہے اس موت پر جو ہمیشہ کے لئے ہوگی، جس میں مر کر جی اٹھنے کی بات نہیں ہوگی، جو غلام کی زندگی ہے یعنی مجھے افسوس ہے اس زندگی کی جنگ پر جس میں کوئی شکست کھاتا ہے اور کوئی جیت جاتا ہے۔دنیا کے اندر یہ جو انسانی تگ و دو کا عمل ہے یہ کسی دن ختم بھی ہوگا یا نہیں ہوگا۔ مراد ہے اس کے خاتمے پر ہی میں مطمئن ہوں گی اور یہ خاتمہ قیامت برپا ہونے پر ہی ہوگا۔


عقل کو ملتی نہیں اپنے بتوں سے نجات
عارف و عامی تمام بندۂ لات و منات

معنی

نجات:رہائی۔
عارف:خدا کی پہچان رکھنے والا،خاص آدمی۔
عامی:عام آدمی۔
لات و منات: دو بتوں کے نام جو کفار نے اسلام سے پہلے کعبہ میں رکھے تھے۔

تشریح

اس دور میں عشق اور جذبہ مغلوب ہو چکا ہے اور ہر طرف عقل کی حکمرانی نظر آتی ہے۔ایسی عقل جس نے غیر اللہ اور غیر یقینی کے طرح طرح کے بت تراش رکھے ہیں اور آدمی عام ہو یا خاص ہو، خدا کی معرفت کا دعوایٰ کرنے والا ہو یا اس کی پہچان سے غافل ہو، سب اس عقل کے گھڑے ہوئے طرح طرح کے اور رنگ رنگ کے بتوں کے غلام بنے ہوئے ہیں اور اللہ کے غلام کہیں بھی نظر نہیں آتے نتیجہ یہ ہے کہ معاشرے میں ہر طرف شیطنت پھیلی ہوئی ہے۔


خوار ہوا کس قدر آدمِ یزداں صفات
قلب و نظر پر گراں ایسے جہاں کا ثبات

معنی

خوار:ذلیل۔
آدمِ یزداں صفات: خدا کی صفات رکھنے والا آدمی۔
قلب:دل۔
گراں:بھاری،بوجھل۔
جہاں: دنیا۔
ثبات:قائم رہنا۔

تشریح

اس دور میں مغرب کی تہذیب و ثقافت ،علم و ہنر اور سیاسی داؤ پیچ کی بنا پر آدمی جو خدا کی صفتوں کا مظہر کہا جاتا ہے، جتنا ذلیل ہوا ہے پہلے کبھی نہیں ہوا ۔ آدم کو اللہ تعلیٰ نے اپنے نائب اور خلیفہ کے طور پر زمین پر بھیجا تھا ۔ اس میں اپنی صفتوں کے اظہار سے اسے جملہ مخلوق کا سردار اور ہر دوسری مخلوق سے افضل بنایا تھا۔ اس نے اپنی شرافت اور بزرگی کو خود ہی روند ڈالاہے۔عہد حاضر کا یہ جہان جس میں آدمیت اور انسانیت کی اس حد تک تذلیل ہوئی ہے کہ ایک صاحبِ عقل و دل والا انسان اسے دیکھ کر شرمسار اور افسوس کرتا ہے۔


کیوں نہیں ہوتی سحر حضرت انساں کی رات؟

معنی

سحر: صبح۔
حضرت: بزرگی کا کلمہ۔

تشریح

وہ انسان جس کے حضور اور جس کے جناب میں کبھی فرشتوں نے سجدہ کیا تھا اس دور میں اپنی  حقیقت بھول کر ایسا شیطان صفت بن چکا ہے کہ اس کی زندگی کا جہان رات کی تاریکی کی طرح بے نور اور خوفناک بن چکا ہے۔آخر اس کی دنیا ئے زندگی کی یہ رات کب ختم ہوگی کب وہ اسے صبح روشن میں تبدیل کرےگا۔کب وہ اجالا ستھرا اور صحیح انسان بنے گا۔کب اسے اس بات کا خیال آئےگا کہ وہ تو ہر مخلوق سے افضل ہے۔