مردہ اپنی قبر سے
مردہ اپنی قبرسے سوال کرتا ہے کہ قیامت کیا چیز ہے اور یہ کس آج کی ہونے والی کل ہے۔ اے میری قبر، اے میری خواب گاہ قیامت کیا ہے۔
قبر
اے صدیوں سے مرے ہوئے مردے! کیا تجھے معلوم نہیں کہ ہر موت کے پیچھے اس کی جو ضرورت ہے یا ہر موت کا جو چھپا ہوا لازمی نتیجہ ہے وہ قیامت ہے یعنی ہر مرنے والے کو ایک دن حساب کتاب دینے کے لئے اٹھنا ہے اس دن کا نام قیامت ہے یہ ایسا دن ہے ہے جو ہر مرنے والے کو پیش آنا ہے۔
مردہ
اے قبر جس موت کا چھپا ہوا لازمی نتیجہ یا ضرورت قیامت ہے اس جال میں میں پھنسا ہوا نہیں ہوں۔ میں وہ مردہ ہوں جو قیامت کے دن بھی اپنی قبر میں سویا رہوں گا۔
اگرچہ مجھے مرے ہوئے صدیاں گزر چکی ہیں لیکن میں اپنے مٹی کے اس تاریک گھر سے جس کا نام قبر ہے اکتایا ہوا نہیں ہوں۔ میں قیامت کے دن بھی اپنے قبر کے گھر کو نہیں چھوڑوں گا۔
اگر قیامت اس کا نام ہے کہ مرے ہوئے جسموں میں پھر روح داخل کر کے ان کو زندہ کیا جائےگا تو ایسی قیامت سے مجھے کوئی سروکار نہیں، اس کا میں خریدار نہیں کیونکہ مجھے جو لطف قبر کے تاریک خانہ میں روح اور زندگی کے بغیر مل رہا ہے وہ زندہ ہو کر نہیں ملے گا۔ اس کے برعکس یہاں نہ محنت ہے نہ مشقت ہے، بس آرام ہی آرام ہے۔ مجھے دوبارہ زندہ ہونے کی ضرورت نہیں۔
صدائے غیب
مردہ کی بات سن کر غیب سے آواز آتی ہے کہ اے صد سالہ مردے تو زندہ نہیں ہونا چاہتا اور ہمیشہ کی موت سونا چاہتا ہے۔ یہ تو سانپ ، بچھو، درندہ وغیرہ کی بھی قسمت میں نہیں ہے اور تو انسان ہو کر ہمیشگی کی موت سے محبت کر رہا ہے اور مرنے کے بعد پھر زندہ ہونے کے عمل سے اکتایا ہوا ہے۔ معلوم ہوتا ہے تو کسی غلام قوم کا فرد ہے اس لئے دوبارہ زندہ ہونے سے بچ رہا ہے کیونکہ ایسی موت غلام کی ہو سکتی ہے آزاد قوم کی نہیں۔
غلام کی زندگی بھی موت کے برابر ہوتی ہے۔ اس کا جسم روح سے خالی ہوتا ہے، ان معنوں میں کہ وہ زندہ ضرور ہوتا ہے لیکن اس کے جسم و روح پر اس کے آقا کا حکم چلتا ہے۔ وہ ایک زندہ جنازہ ہوتا ہے۔جس مردہ کی زندگی کی یہ صورت ہو اس کو تو اسرافیل کے صور پھونکنے کی آواز بھی نہیں زندہ کر سکے گی۔
صدائے غیب ایک قاعدہ، ایک کلیہ، ایک اصول بیان کرتی ہے کہ مرنے کے بعد دوبارہ جینا آزاد لوگوں کی قسمت میں لکھا گیا ہے۔ اگرچہ ہر روح رکھنے والے زندہ آدمی کو ایک نہ ایک دن مر کر قبر کی گود میں جانا ہے، لیکن فرق یہ ہے کہ غلام اس کی گود میں ہمیشہ کے لئے سویا رہے گا لیکن آزاد مر کر پھر جی اٹھے گا۔
قبر (اپنے مردہ سے)
صدائے غیب کو سن کر اور مردے کی دوبارہ زندہ نہ ہونے کی خواہش سن کر قبر چلا اٹھتی ہے کہ اے وہ شخص جو میری گود میں سویا ہوا ہے، تو نے مجھ پر بڑا ظلم کیا ہے کہ غلام ہو کر میری گود میں آرام کرنے کے لئے آگیا ہے۔جب سے تو آیا ہے میری مٹی ماتم کر رہی ہے اور صرف اس لئے یہ مرثیہ خواں ہوئی ہے کہ تو زندگی میں غلام تھا اور میں یہ بات سمجھ نہیں پائی۔
تیری نعش سے وہ اندھیرا جو میرے اندر پہلے سے موجود تھا اور بڑھ گیا ہے۔ تیری نعش نے تو زمین کا پردہ عزت بھی پھاڑ دیا ہے۔ تیرے زمین میں آنے سے زمین کی عزت بھی برباد ہو گئی ہے۔
قبر کہتی ہے کہ محکوم و غلام لاش سے میں بار بار اللّہ کی پناہ ڈھونڈتی ہوں۔ ہر وقت اللہ کی پناہ مانگو اے قیامت کے روز صور پھونکنے والے فرشتہ تو کہاں ہے۔ جلد صور پھونک تا کہ میری گود اس میت سے خالی ہو جائے۔ اے کائنات کے خدا تو اس مردے سے میری گود کو خالی کر دے اور اس کی جگہ کوئی پاک جان میرے سپرد کر۔کوئی ایسی جان جو غلامی کی آلودگی سے پاک ہو۔
صدائے غیب
اگر چہ قیامت برپا ہونے کے خیال سے دنیا کا نظامِ زندگی و حیات ناراض و رنجیدہ ہے، لیکن اس ہنگامہ سے اس دنیا کے اور اس زندگی کے بھید ظاہر ہو جایئں گے، اور جو کچھ کسی نے اپنی زندگی میں کیا ہے وہ سب کچھ اس کے سامنے آجائے گا اور پرانی زندگی کی جگہ نئی زندگی لے گی۔
صدائے غیب نے بھونچال کی مثال دے کر دنیا اور اس کے بعد کی زندگی کی صورت حال سمجھائی ہے اور کہا ہے کہ بھونچال سے جہاں پہاڑ، گھاٹیاں اور آبادیاں تباہ ہو جاتی ہیں اور وہ بادل کے مانند اڑتی نظر آتی ہیں وہاں پہاڑوں سے چشمے بھی پھوٹ پڑتے ہیں اور ان سے ان کے درمیان کے میدان سیراب ہونے لگتے ہیں اور وہ ہرے بھرے ہو جاتے ہیں۔ قیامت بے شک اس کائنات کو جس میں ہم زندگی گزار رہے ہیں برباد کر دیگی لیکن اس سے ایک نئی دنیا، ایک نئے جہاں اور ایک نئی زندگی کا آغاز ہوگا۔
اصول یہ ہے کہ نئی آبادی کے لئے پرانی آبادی کو بالکل ختم کرنا پڑتا ہے۔زندگی کی مشکلات کے حل کے لئے اس کائنات کو ایک نہ ایک دن ختم کرنا اور اس کی جگہ ایک نئی کائنات کو جگہ دینا ضروری ہے۔قیامت برپا ہونے سے انسان کی موجودہ زندگی اور اس کی مشکلات ختم ہو جائیں گی اور اسے اس کی جگہ نئی طرز کی زندگی مل جائے گی، وہ جسے آخرت کی زندگی کہتے ہیں۔
زمین
قبر ،مردہ اور صدائے غیب کی ساری باتیں سننے کے بعد زمین کہتی ہے کہ افسوس ہے اس موت پر جو ہمیشہ کے لئے ہوگی، جس میں مر کر جی اٹھنے کی بات نہیں ہوگی، جو غلام کی زندگی ہے یعنی مجھے افسوس ہے اس زندگی کی جنگ پر جس میں کوئی شکست کھاتا ہے اور کوئی جیت جاتا ہے۔دنیا کے اندر یہ جو انسانی تگ و دو کا عمل ہے یہ کسی دن ختم بھی ہوگا یا نہیں ہوگا۔ مراد ہے اس کے خاتمے پر ہی میں مطمئن ہوں گی اور یہ خاتمہ قیامت برپا ہونے پر ہی ہوگا۔
اس دور میں عشق اور جذبہ مغلوب ہو چکا ہے اور ہر طرف عقل کی حکمرانی نظر آتی ہے۔ایسی عقل جس نے غیر اللہ اور غیر یقینی کے طرح طرح کے بت تراش رکھے ہیں اور آدمی عام ہو یا خاص ہو، خدا کی معرفت کا دعوایٰ کرنے والا ہو یا اس کی پہچان سے غافل ہو، سب اس عقل کے گھڑے ہوئے طرح طرح کے اور رنگ رنگ کے بتوں کے غلام بنے ہوئے ہیں اور اللہ کے غلام کہیں بھی نظر نہیں آتے نتیجہ یہ ہے کہ معاشرے میں ہر طرف شیطنت پھیلی ہوئی ہے۔
اس دور میں مغرب کی تہذیب و ثقافت ،علم و ہنر اور سیاسی داؤ پیچ کی بنا پر آدمی جو خدا کی صفتوں کا مظہر کہا جاتا ہے، جتنا ذلیل ہوا ہے پہلے کبھی نہیں ہوا ۔ آدم کو اللہ تعلیٰ نے اپنے نائب اور خلیفہ کے طور پر زمین پر بھیجا تھا ۔ اس میں اپنی صفتوں کے اظہار سے اسے جملہ مخلوق کا سردار اور ہر دوسری مخلوق سے افضل بنایا تھا۔ اس نے اپنی شرافت اور بزرگی کو خود ہی روند ڈالاہے۔عہد حاضر کا یہ جہان جس میں آدمیت اور انسانیت کی اس حد تک تذلیل ہوئی ہے کہ ایک صاحبِ عقل و دل والا انسان اسے دیکھ کر شرمسار اور افسوس کرتا ہے۔
وہ انسان جس کے حضور اور جس کے جناب میں کبھی فرشتوں نے سجدہ کیا تھا اس دور میں اپنی حقیقت بھول کر ایسا شیطان صفت بن چکا ہے کہ اس کی زندگی کا جہان رات کی تاریکی کی طرح بے نور اور خوفناک بن چکا ہے۔آخر اس کی دنیا ئے زندگی کی یہ رات کب ختم ہوگی کب وہ اسے صبح روشن میں تبدیل کرےگا۔کب وہ اجالا ستھرا اور صحیح انسان بنے گا۔کب اسے اس بات کا خیال آئےگا کہ وہ تو ہر مخلوق سے افضل ہے۔