پہلا بند
اقبال نے ہر تصنیف میں بیان کیا ہے کہ عشق نے اللہ کی ہستی پر دلائل قائم کر کے ہمارے دل میں ظن غالب پیدا کردی ہےکہ اس کائنات میں کوئی خالق یا صانع ضرور ہے۔لیکن وہ اس کی ہستی کا یقین پیدا نہیں کر سکتی یعنی عقل آستانِ محبوب تک تو پہونچ جاتی ہے لیکن اس کے دیدار سے مشرف نہیں ہو سکتی۔
دوسرا بند
چونکہ آنکھ صرف مظاہر اور سامنے کی اشیاء کو دیکھ سکتی ہے، اس لئے اقبال یہ مشورہ دیتے ہیں کہ دلِ بینا بھی خدا سے طلب کرو تاکہ حقائق کا ادراک اور سمجھ پیدا ہو سکے۔ واضح ہو کہ اقبال کی رائے میں حقیقتِ اشیاء کے دیکھنے کا آلۂ حواسِ خمسہ یا آنکھ نہیں ہے بلکہ دل ہے۔
تیسرا اور چوتھا بند
علم سے بھی انسان کو سرور حاصل ہوتا ہے لیکن یہ سرور محض عقل کے دائرہ میں محدود ہوتا ہے جسے ذہنی مسرّت کہتے ہیں اس سے انسان میں مستی کی کیفیت پیدا نہیں ہو سکتی ۔لیکن جو سرور عشق سے پیدا ہوتا ہے وہ پوری شخصیت کو محیط ہوتا ہے اور اس کی بدولت رگ و پے میں مستی کا رنگ پیدا ہوجاتا ہے یعنی عشق کا سرور جذبات اور احساسات کی دنیا میں بھی ہنگامہ برپا کر دیتا ہے۔لیکن افسوس کہ مسلمانوں میں آج کل عشق کا سرور تو دور، علم کا سرور بھی نظر نہیں آتا۔
پانچواں بند
جنون کی دو قسمیں ہیں، عشق حقیقی کی بنا پر انسان میں جو کیفیت جنون پیدا ہوتی ہے اس میں شعور اور آگاہی کا رنگ شامل ہوتا ہے لیکن دنیاوی چیزوں کے عشق میں انسان عقل و شعور سب سے بیگانہ ہو جاتا ہے۔ یہ وصف اللہ کے عشق میں ہے کہ انسان کو فرزانہ یعنی حکیم و دانا بنا دیتا ہے۔
چھٹا بند
دل کی زندگی یہ ہے کہ وہ عشق حقیقی میں بیتاب رہے، جس دل میں محبوبِ حقیقی سے ملنے کی تڑپ (ناصبوری)نہیں محض گوشت کا لوتھڑا ہے۔
ساتواں بند
اے مسلمان اگر تیرا دل مردہ ہے تو سمجھ لے کہ اس کا باعث یہ ہے کہ تو عاشق نہیں ہے، اگر تو اللہ سے محبت کا شیوہ اختیار کرے تو تجھے حضوری حاصل ہو جائےگی۔اور اس حضوری سے تیرا دل زندہ ہو جائےگا۔
آٹھواں بند
اے مسلمان! فطرت کے نظام کودیکھ یہاں ہر چیز مرتبۂ کمال کو پہونچ کر اپنے آپ کو ظاہر کر دیتی ہے، جیسے جب سیپ کے دل میں موتی بن کر تیار ہو جاتا ہے تو وہ سیپ کی کھول کو توڑ کر باہر آ جاتا ہے، لیکن افسوس کہ انسان جسے اللہ تعلی نے اشرف المخلوقات بنایا ہے اپنی مخفی قوتوں کو بروئے کار لانا نہیں چاہتا یعنی اپنے کمالات کو ظاہر کرنے کے لئے جد و جہد نہیں کرتا۔
نواں بند
اَرِنی کے معنی ہیں مجھے دکھا حجرت موسیٰ ؑ نے اللہ تعلیٰ سے درخواست کی تھی کہ اے رب مجھے اپنے آپ کو دکھا ۔اللہ نے فرمایا لَن تَرَانیِ تو مجھے ہر گز نہ دیکھ سکے گا۔ چونکہ اس کے جواب سے حضرت موسیٰؑ کے اشتیاق میں کمی نہ ہو سکے اس لئے از راہِ لطف و کرم بلکہ بندہ نوازی اللہ نے فرمایا کہ ہم اپنی تجلّی کوہ طور پر نازل کر رہے ہیں اگر تم صفت کی تجلّی کی تاب لا سکتے ہو تو دیکھ لو۔پس اللہ نے اپنی تجلّی فرمائی پھر کیا ہوا پہاڑ ریزہ ریزہ ہو گیا اور موسیٰؑ بے ہوش ہو کر گر پڑے، جب ہوش میں آئے تو سمجھے کہ جب انسان اس کی تجلّی کی تاب نہیں لا سکتا تو ذات کو کیسے دیکھ سکتا ہے؟
اقبال کہتے ہیں کہ طالبِ دیدار تو میں بھی ہوں لیکن موسی علیہ السلام کی طرح نہ تو میں ایسی تجلّی کا خواہاں ہوں اور نہ ہی آواز میں وہ تاثیر ہے کہ مجھے تجلی کا دیدار ہو۔ بلکہ میں یہ چاہتا ہوں کہ اللہ میری خودی کو اس درجہ مستحکم فرما دے کہ میں اس کی تجلّیات کی تاب لا سکوں۔