علامہ کہتے ہیں کہ جس طرح قطرۂ نیساں میں موتی کی تخلیق کی تاثیر موجود ہوتی ہے اسی طرح مسلمانوں کی دعاؤں میں گرنے والے آنسوؤں میں بھی اتنی قوتِ تاثیر ہے کہ اسلام کے ایک نئے دور آغاز ہو سکتا ہے، مسلمانوں کو وہ حکومت اور شان و شوکت مل سکتی ہے جو کبھی ان کے اسلاف کو حاصل تھی۔
جس طرح کتاب کے اوراق کو شیرازہ میں جوڑا جاتا ہے ویسے ہی نظامِ خلافت کے قیام کی جد و جہد نے بھی مسلمانوں کو ایک شیرازہ میں متحد کر دیا ہے، اور یہ اس بات کی واضح علامت ہے کہ امتِ محمدیہ ﷺ ایک بار پھر ترقی کے عروج پر پہنچے گی اور دنیا میں اسلام کا نظامِ عدل قائم ہوگا۔
ترکوں کو جو عظمت و شوکت حاصل تھی وہ اب افغانستان، ایران اور دنیائے اسلام کو ملنے والی ہے۔ جس طرح صبا پھول کی خوشبو کو ماحول میں بکھیر دیتی ہے، اسی طرح مسلم بیداری تمام دنیائے اسلام میں پھیل رہی ہے اور انقلابِ اسلامی کی راہ ہموار کر رہی ہے۔
علامہ کہہ رہے ہیں کہ اگر چہ خلافتِ عثمانیہ کا خاتمہ ہو چکا ہے اور عثمانیوں کو ملک بدر کر دیا گیا ہے، لیکن مسلمانوں کو دل شکستہ نہیں ہونا چاہئے کیونکہ یہ ایک نئے دور کے آغاز کی علامت ہے۔ جس طرح فلک پہ موجود لاکھوں ستاروں کی خاتمے کے بعد ہی صبحِ نو آتی ہے، اسی طرح عثمانیوں کے زوال کے بعد اسلام کی نئی تاریخ کا آغاز ہوگا۔
علامہ اقبال کہتے ہیں کہ دنیا پر حکومت کرنا بڑی بات نہیں ہے بلکہ دنیا میں بناؤ بگاڑ اور عروج و زوال کے فلسفے اور حکمت کو سمجھنا اہم ہے۔ لیکن یہ فہم و فراست آسانی سے حاصل نہیں ہوتی، اس کے لئے مجاہدے اور مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے۔ نرگس کا پھول اپنی بد صورتی اور بے نوری پر سالوں تک آنسو بہاتا رہتا ہے تب کہیں جا کر نرگس کو انسانی آنکھوں جیسی خوبصورتی اور حسن عطا ہوتا ہے۔ حکمت و بصیرت بھی ایسی ہی نایاب چیز ہے۔
اے شاعر! چونکہ تم زندگی کے اصل راز سے واقف ہو چکے ہو، تو اس لئے یہ راز تمہیں مسلمانوں تک پہنچانا ہے اور انہیں کامیابی کی شاہراہ اور طریقِ کار واضح کرنا ہوگا جس پر چل کر ہمارے اسلاف عروج کی منزلوں پر فائز ہوئے۔