(دوسرا بند)طلوع اسلام

سرشکِ چشمِ مُسلم میں ہے نیساں کا اثر پیدا
 خلیل اللہؑ کے دریا میں ہوں گے پھر گُہر پیدا

معنی

سر شک: آنسو۔
نیساں: بارش، بارش کا وہ قطرہ جس سے سیپ کے اندر موتی بنتا ہے۔
خلیل اللہ: اللہ کا دوست، ابراہیم علیہ السلام کا لقب۔
گہر:موتی۔

تشریح

علامہ کہتے ہیں کہ جس طرح قطرۂ نیساں میں موتی کی تخلیق کی تاثیر موجود ہوتی ہے اسی طرح مسلمانوں کی دعاؤں میں گرنے والے آنسوؤں میں بھی اتنی قوتِ تاثیر ہے کہ اسلام کے ایک نئے دور آغاز ہو سکتا ہے، مسلمانوں کو وہ حکومت اور شان و شوکت مل سکتی ہے جو کبھی ان کے اسلاف کو حاصل تھی۔


 کتابِ مِلّتِ بیضا کی پھر شیرازہ بندی ہے
 یہ شاخِ ہاشمی کرنے کو ہے پھر برگ و بر پیدا

معنی

ملتِ بیضا: کنایتاً مسلمان قوم۔
شیرازہ:کتاب کے اوراق کو جوڑ والا دھاگہ، مراد اتحاد کی علامت۔
برگ و بر: پھول اور پتے۔

تشریح

جس طرح کتاب کے اوراق کو شیرازہ میں جوڑا جاتا ہے ویسے ہی نظامِ خلافت کے قیام کی جد و جہد نے بھی مسلمانوں کو ایک شیرازہ میں متحد کر دیا ہے، اور یہ اس بات کی واضح علامت ہے کہ امتِ محمدیہ ﷺ ایک بار پھر ترقی کے عروج پر پہنچے گی اور دنیا میں اسلام کا نظامِ عدل قائم ہوگا۔


 ربود آں تُرکِ شیرازی دلِ تبریز و کابل را
 صبا کرتی ہے بُوئے گُل سے اپنا ہمسفر پیدا

معنی

صبا: مشرقی ہوا، صبح کی ہوا۔

تشریح

ترکوں کو جو عظمت و شوکت حاصل تھی وہ اب افغانستان، ایران اور دنیائے اسلام کو ملنے والی ہے۔ جس طرح صبا پھول کی خوشبو کو ماحول میں بکھیر دیتی ہے، اسی طرح مسلم بیداری تمام دنیائے اسلام میں پھیل رہی ہے اور انقلابِ اسلامی کی راہ ہموار کر رہی ہے۔


 اگر عثمانیوں پر کوہِ غم ٹُوٹا تو کیا غم ہے
 کہ خُونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحَر پیدا

معنی

صد ہزار: سو ہزار، مراد لاتعداد، انگنت۔

تشریح

علامہ کہہ رہے ہیں کہ اگر چہ خلافتِ عثمانیہ کا خاتمہ ہو چکا ہے اور عثمانیوں کو ملک بدر کر دیا گیا ہے، لیکن مسلمانوں کو دل شکستہ نہیں ہونا چاہئے کیونکہ یہ ایک نئے دور کے آغاز کی علامت ہے۔ جس طرح فلک پہ موجود لاکھوں ستاروں کی خاتمے کے بعد ہی صبحِ نو آتی ہے، اسی طرح عثمانیوں کے زوال کے بعد اسلام کی نئی تاریخ کا آغاز ہوگا۔


 جہاں بانی سے ہے دُشوار تر کارِ جہاں بینی
 جگر خُوں ہو تو چشمِ دل میں ہوتی ہے نظر پیدا
 ہزاروں سال نرگس اپنی بے نُوری پہ روتی ہے
 بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہوَر پیدا

معنی

جہاں بانی: حکومت۔
جہاں بینی: دنیا کا مشاہدہ کرنا۔
دیدہ ور: آنکھیں رکھنے والا۔

تشریح

علامہ اقبال کہتے ہیں کہ دنیا پر حکومت کرنا بڑی بات نہیں ہے بلکہ دنیا میں بناؤ بگاڑ اور عروج و زوال کے فلسفے اور حکمت کو سمجھنا اہم ہے۔ لیکن یہ فہم و فراست آسانی سے حاصل نہیں ہوتی، اس کے لئے مجاہدے اور مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے۔ نرگس کا پھول اپنی بد صورتی اور بے نوری پر سالوں تک آنسو بہاتا رہتا ہے تب کہیں جا کر نرگس کو انسانی آنکھوں جیسی خوبصورتی اور حسن عطا ہوتا ہے۔ حکمت و بصیرت بھی ایسی ہی نایاب چیز ہے۔


 نوا پیرا ہو اے بُلبل کہ ہو تیرے ترنّم سے
 کبوتر کے تنِ نازک میں شاہیں کا جگر پیدا

معنی

نواپیرا: نغمہ سرائی کرنا، نغمہ کی محفل سجانا۔
شاہین: ایک شکاری پرندہ جو اکثر اپنے سے بڑے پرندوں اور جانوروں کو مار لیتا ہے۔

تشریح

اے شاعر! چونکہ تم زندگی کے اصل راز سے واقف ہو چکے ہو، تو اس لئے یہ راز تمہیں مسلمانوں تک پہنچانا ہے اور انہیں کامیابی کی شاہراہ اور طریقِ کار واضح کرنا ہوگا جس پر چل کر ہمارے اسلاف عروج کی منزلوں پر فائز ہوئے۔


تیسرا بندپہلا بند