اے مردِ مومن! اس جہاں میں تو ہی خدا کا نائب اور اسکی قدرتِ کاملہ کا مظہر ہے، اس نے تجھے اپنے کلام(قرآن) کا امین اور مبلغ بنایا ہے۔ گویا خدا کی قدرت کا نشان بھی تُو ہے اور کائنات کے لئے خدا کا کلام بھی تُو ہے۔ اسلئے تجھے وہم و گمان سے نکل کر اپنے اندر خود اعتمادی پیدا کرنی چاہئے اور اپنی خودی کو بلند کرنا چاہئے۔
جس طرح کتاب کے اوراق کو شیرازہ میں جوڑا جاتا ہے ویسے ہی نظامِ خلافت کے قیام کی جد و جہد نے بھی مسلمانوں کو ایک شیرازہ میں متحد کر دیا ہے، اور یہ اس بات کی واضح علامت ہے کہ امتِ محمدیہ ﷺ ایک بار پھر ترقی کے عروج پر پہنچے گی اور دنیا میں اسلام کا نظامِ عدل قائم ہوگا۔
مردِ مومن کے مقاصد بہت اعلیٰ و ارفع ہیں، اس مقصد کی بلندی کے سامنے آسمان بھی ہیچ ہے۔ جس طرح بڑے کاروان کے چلنے سے راستہ میں گرد و غبار اڑنے لگتی ہے، اسی طرح مسلمان کے اس عظیم مقصد اور سفر کے سامنے ستاروں کی حیثیت گرد و غبار کی مانند ہے۔
یہ دنیا فنا ہو جانے والی ہے اور اس میں رہنے والے انسان اور اسکی ہر شے ایک مختصر وقت کے لئے ہیں۔ لیکن تُو، اے مسلم! اپنی ذات کے اعتبار سے غیر فانی ہے اور تیرے بعد کوئی ملت نہیں آنے والی۔ اس دنیا میں خدا کا آخری کلام ہمیشہ باقی رہے گا، اور حاملِ قرآن ہونے کی وجہ سے تُو بھی باقی رہے گا یعنی تجھے حیاتِ جاوداں عطا ہوئی ہے۔
اے مسلم! تیرے اندر عشقِ حقیقی (خدا سے عشق) کا جو وصف (خونِ جگر) پایا جاتا ہے اس کی بدولت تیری ذات اس کائنات کی رونق کا سبب بن گئی۔ تجھے سیدنا ابراہیم علیہ السلام سے خاص تعلق ہے، جنھوں نے جہاں میں توحید کے مرکز کعبہ کی تعمیر کی تھی، اسلئے تجھے بھی اس دنیا کی تعمیرِ نو کرنی ہے جس کی بنیاد میں توحید و اسلام کی تعلیم ہو۔
عروسِ لالہ سے مراد وہ افراد یا اشیاء ہیں جن میں ترقی کی صلاحیت پائی جاتی ہے یا جن کا وجود دنیا کے لئے زینت و آرائش سبب ہو۔
اے مسلمان! ﷲ نے تیری فطرت میں غیر محدود صلاحیتیں اور امکانات ودیعت فرما دیے ہیں جو اس دنیا کی ترقی و تعمیر کے لئے ضروری ہیں۔ اب تمہاری ذمہ داری یہ ہے کہ ان صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر اس دنیا کی تعمیر و ترقی کا کام سرانجام دو۔ اس کائنات کی ترقی اور تنزلی دونوں تمہاری صلاحیتوں پر موقوف ہے۔ گویا کائنات ایک امتحان ہے جس کا پاس یا فیل ہونا تم پر منحصر ہے، اگر تم نے اپنی پوشیدہ صلاحیتوں سے اس دنیا کو مسخر کر لیا تو ہی اس کا مقصدِ وجود مکمل ہو گا۔
اے مسلمان! تو تحفہ ہے جس کو نبوت اس عالم فانی سے عالم جاوید کی خاطر لے گئی۔ یعنی جب ﷲ تعالیٰ رسول ﷲ ﷺ سے پوچھے گا کہ ہم نے آپکو دنیا اپنا نبی بنا کر بھیجا تھا آپ ﷺ نے وہاں کیا کارِ نمایاں انجام دیا؟ تو رسالت مآب ﷺ عرض کر سکتے ہیں کہ میں نے تیرے مخلص بندوں اور مومین ایک جماعت تیار کی، جنھوں نے تیرے کلمہ کو پوری دنیا میں بلند کیا۔ لہٰذا اے مسلم! تو بھی اپنے اندر وہ ایمان پیدا کر لے تاکہ تُو بھی ان لوگوں میں شامل ہو سکے جن پر حضور اقدس ﷺ فخر کریں گے۔
اے مردِ مسلم! اگر تُو اپنے اسلاف کی تاریخ کا مطالعہ کرے تو یہ بات واضح ہو جائے گی کہ برِ اعظم ایشیا میں رہنے والی قوموں کی حفاظت صرف ایک مردِ مومن ہی کر سکتا ہے، اور اس کے لئے تمہیں اپنے اندر اسلاف کی صفات پیدا کرنی ہوگی۔ ان صفات میں صداقت، عدالت اور شجاعت کو علامہ اقبال لازم قرار دیتے ہیں۔ ان صفات سے متصف ہو کر ہی ایک مردِ مومن دنیا کی امامت کے لائق بن سکتا ہے۔