دنیا کو ہے پھر معرکۂ رُوح و بدن پیش
دنیا کو ہے پھر معرکۂ رُوح و بدن پیش
تہذیب نے پھر اپنے درِندوں کو اُبھارا
اللہ کو پامردیِ مومن پہ بھروسا
اِبلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا
دنیا کو ہے پھر معرکۂ رُوح و بدن پیش
تہذیب نے پھر اپنے درِندوں کو اُبھارا
اللہ کو پامردیِ مومن پہ بھروسا
اِبلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا
اللہ کو پامردیِ مومن پہ بھروسا
اِبلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا
خودی ہو زندہ تو ہے فقر بھی شہنشاہی
نہیں ہے سَنجر و طغرل سے کم شکوہِ فقیر
یہ دنیا دعوتِ دیدار ہے فرزندِ آدم کو
کہ ہر مستور کو بخشا گیا ہے ذوقِ عریانی
دلِ بینا بھی کر خدا سے طلب
آنکھ کا نور دل کا نور نہیں
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پُوچھے، بتا تیری رضا کیا ہے