Allama Iqbal’s famous Excerpt from Poetry
غرّۂ شوّال! اے نُورِ نگاہِ روزہدار
غرّۂ شوّال! اے نُورِ نگاہِ روزہدار
آ کہ تھے تیرے لیے مسلم سراپا انتظار
تیری پیشانی پہ تحریرِ پیامِ عید ہے
شام تیری کیا ہے، صُبحِ عیش کی تمہید ہے
سرگزشتِ ملّتِ بیضا کا تُو آئینہ ہے
اے مہِ نو! ہم کو تجھ سے اُلفتِ دیرینہ ہے
کي محمد سے وفا تو نے تو ہم تيرے ہيں
عقل ہے تيري سپر، عشق ہے شمشير تري
مرے درويش! خلافت ہے جہاں گير تري
ماسوي اللہ کے ليے آگ ہے تکبير تري
تو مسلماں ہو تو تقدير ہے تدبير تري
کي محمد سے وفا تو نے تو ہم تيرے ہيں
يہ جہاں چيز ہے کيا، لوح و قلم تيرے ہيں
دنیا کو ہے پھر معرکۂ رُوح و بدن پیش
دنیا کو ہے پھر معرکۂ رُوح و بدن پیش
تہذیب نے پھر اپنے درِندوں کو اُبھارا
اللہ کو پامردیِ مومن پہ بھروسا
اِبلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا
خودی ہو زندہ تو ہے فقر بھی شہنشاہی
خودی ہو زندہ تو ہے فقر بھی شہنشاہی
نہیں ہے سَنجر و طغرل سے کم شکوہِ فقیر
یہ دنیا دعوتِ دیدار ہے فرزندِ آدم کو
یہ دنیا دعوتِ دیدار ہے فرزندِ آدم کو
کہ ہر مستور کو بخشا گیا ہے ذوقِ عریانی