پہلا شعر
اقبال کہتے ہیں کہ میں حکماء سے یہ دریافت نہیں کرنا چاہتا کہ میری ابتداء کیا ہی کیونکہ میں جانتا ہوں کہ کوئی فلسفی اس بنیادی سوال کا صحیح اور تسلّی بخش جواب نہیں دے سکتا کہ انسان کی ابتداء کیونکر ہوئی؟ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سوال کا جواب عقل کی دسترس سے باہر ہے۔
جب کہ یہ مسلّم ہے کہ مجھے اپنی ابتداء کا علم حاصل نہیں ہو سکتا تو میں اس ناممکن بات کے حصول میں اپنا وقت اور اپنی دماغی قوت کیوں ضائع کروں۔
انسان کو لازم ہے کہ اپنی ابتداء پر غور نہ کرے (کیونکہ) اس سوال کا جواب نہ کسی نے دیا ہے اور نہ دے سکتا ہے۔بلکہ پوری توجہ اس امر پر کرے کہ اپنے نفس کو نفسِ امّارہ سے نفسِ مطمئنہ کے مقام پر پہونچائے۔
اس کے بجائے میں یہ غور کرتا رہتا ہوں کہ میری انتہا کیا ہے؟ یعنی روحانی اعتبار سے انسان کہاں تک ترقی کر سکتا ہے؟ اور چونکہ اس سوال کا جواب مل سکتا ہے اس لئے میرا فرض ہے کہ میں روحانی ترقی کے لئے کوشش کروں۔
دوسرا شعر
خودی کو بلند کرنے سے اقبال کی مراد خودی کی وہ حالت جبکہ وہ اللہ کی مرضی میں بالکل فنا ہو جائے یعنی بندہ اللہ کی مشیت کے سامنے سر تسلیم خم اس طرح کر دے کہ اس کی مرضی بالکل وہی ہو جائے جو اللہ کی مرضی ہے اور اسے اللہ کے احکام کی تعمیل میں ایسی لذت محسوس ہو گویا وہ حکم خود اسی نے جاری کیا تھا۔ دوسری طرف اللہ مومن پر اس قدر مہربان ہو جاتا ہے کہ بسااوقات اپنی مشیت مومن کی خواہش کے مطابق کر دیتا ہے اس رنگ اتحاد کو اقبال نے شاعرانہ انداز میں یوں بیان کیا ہے کہ پھر خدا خود بندے سے دریافت کرتا ہے کہ بتا تیری مرضی کیا ہے۔
تیسرا شعر
کیمیا گر کے لغوی معنی ہیں وہ شخص جو ادنا قسم کی دھاتوں کو سونے میں تبدیل کر دے لیکن اقبال نے اس شعر میں اس لفظ کو بطور اصطلاح اپنے لئے استعمال کیا ہےجس سے انکی مراد ہے کہ میرے کلام میں یہ تاثیر ہے کہ اگر کوئی شخص اسے سمجھ کر پڑھے تو اس کی ذہنیت میں تبدیلی پیدا ہو سکتی ہے یعنی اس کے دماغ میں بلند روحانی خیالات پیدا ہو سکتے ہیں اس شعر میں وہ اس تاثیر کا سبب بیان کرتے ہیں کہ اگر میں کیمیا گر ہوں تو اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے، میرے سوز و نفس (عشق) نے میرے کلام میں یہ تاثیر پیدا کر دی ہے کہ پڑھنے والے کے خیالات میں پاکیزہ قسم کی تبدیلی پیدا ہو جاتی ہے۔
چوتھا شعر
تقدیر کی گہرائی سے اقبال کی مراد وہ بلند ترین مقامات ہیں جو ایک سالک طریق اپنی جدوجہد سے حاصل کر سکتا ہے اور چشم سرمہ سا سے ان کی مراد نگاہ مرشد سے ہے مطلب یہ ہے کہ مرشد کامل کی توجہ سالک کو روحانیت کے بلند ترین مقام پر فائز کر سکتی ہے۔
پانچواں شعر
مجذوبِ فرنگی سے اقبال کی مراد مشہور جرمنی فلسفی اور ماہر فنون لطیفہ نیطشہ ہے جو 1844 میں پیدا ہوا تھا اور 1900 میں فوت ہوا اس کی زندگی بھی اس کے فلسفیانہ افکار کی طرح بہت عجیب و غریب اور دلچسپ ہے۔
اس شعر میں اقبال نے یہ کہا ہے کہ کاش نطشہ حضرت مجدد الف ثانی کے عہد میں پیدا ہوا ہوتا تو ان کے فیض صحبت سے اسے دولتِ ایمان حاصل ہو جاتی۔چونکہ اقبال بھی حضرت مولانا رومی اور مجدد الف ثانی کے متبع ہیں اس لئے انہوں نے بالِ جبریل کے اس شعر میں یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ اگر نطشہ میرے زمانہ میں ہوتا تو میں نے چونکہ ان بزرگوں کی تصانیف سے روحانی فیض حاصل کیا ہے اس لئے اللہ کے فضل سے مجھ میں بھی وہ صلاحیت پیدا ہو گئی ہے کہ میں اسے توحید الہیٰ کی نعمت سے بہرہ ور کر دیتا۔
چھٹا شعر
آخری شعر کے پہلے مصرعہ میں اقبال کہتے ہیں کہ اے خدا! آخر شب کی پیہم گر یہ وزاری نے میرا جینا دوبھر کر دیا ہے، اتنا تو بتا دے کہ مجھے کس خطا کی یہ سزا مل رہی ہے؟
دوسرے مصرعہ میں اقبال جانتے ہیں کہ وہ خطا (اگر اسے خطا کہیں تو) یہ ہے کہ انسان کی فطرتِ سلیمہ کا اقتضاء یہ ہے کہ وہ اس ہستی سے محبت کرے جس نے اسے پیدا کیا ہے چنانچہ دنیا میں آنے سے پہلے تمام روحوں نے اللہ کے سامنے صاف لفظوں میں اس کی الوہیت اور ربوبیت کا اقرار کیا تھا۔