Skip to content

Ecstasy / ذوق و شوق

(ان اشعار میں سے اکثر فلسطین میں لِکھّے گئے)

علامہ اقبال نے اس نظم کو نعتیہ طرز پر لکھا ہے جو ادبی لحاظ سے علامہ کی اور اردو ادب کی بھی دو سب سے بڑی نظموں (مسجدِ قرطبہ اور ذوق و شوق) میں سے ایک ہے۔ نظم کے ہر شعر میں عشق رسول کی جھلک دکھائی دے رہی ہے اس لئے اقبال نے اس کا نام ‘ذوق و شوق’ رکھا ہے۔ ذوق کے لغوی معنی ہیں لذت یا مسرت حاصل کرنا، آزمائش کرنا یا کسی چیز کی حقیقت کو سمجھنا اور قدر و قیمت کا اندازہ کرنے کی صلاحیت۔ اور تصوف میں ذوق روحانی ملکہ کا نام جس کی مدد سے انسان حق و باطل میں امتیاز کرتا ہے۔ اور ‘شوق’ کے معنی ہیں عشق و محبت۔ ان دونوں لفظوں سے شدت احساس مقصود ہے۔

یہ نظم پانچ بندوں پر مشتمل ہے جس میں پہلے بند میں مدینۃ الرسول صل اللہ علیہ وسلم کے گرد و نواح کی دلکش صبح کی منظر کشی کی گئی ہے، دوسرے بند میں اسلامی دنیا کی موجودہ بے بسی و بیکسی پر ماتم کیا ہے اور تیسرے، چوتھے و پانچویں بند میں رسالت مآب علیہ الصلوٰۃ والسلام سے خطاب کیا ہے۔


(پہلا بند)

دریغ آمدم زاں ہمہ بوستاں
تہی دست رفتن سوئے دوستاں

تشریح

یہ شعر شیخ سعدی کا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ میں ایک باغ کی سیر کو آیا تھا اور اب واپسی پر میں اپنے دوستوں کے لئے ایک تحفہ لے کر جا رہا ہوں۔ اقبال فلسطین میں ایک کانفرنس کے لئے گئے تھے اور وہیں انھوں نے یہ نظم لکھی، گویا وہ ہمارے لئے یہ نظم  اُس مبارک سر زمین سے بطور تحفہ لائے ہیں۔

قلب و نظر کی زندگی دشت میں صُبح کا سماں
چشمۂ آفتاب سے نُور کی ندّیاں رواں

تشریح

اقبال مدینہ منورہ اور اسکے گرد و نواح کے نخلستان میں صبح کے سماں کی منظر کشی کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ جب صبح کے وقت سورج کی شعاعیں اس وادی کے باغ اور کوہ و بیاباں میں پڑتی ہے تو یہ دلکش منظر قلب، عقل اور آنکھوں کو ایک نئی زندگی عطا کرتا ہے۔ یعنی یہ منظر مردہ آنکھوں کو زندہ کر دیتا ہے اور قلب و عقل کو جینے کا درس دیتا ہے۔ اور طلوعِ آفتاب کے وقت ایسا لگ رہا ہے جیسے کوئی آتشی چشمہ ہے جس سے نور کی ندّیاں نکل نکل کر اس مبارک سرزمین کی طرف آ رہی ہیں۔

حُسنِ اَزل کی ہے نمود، چاک ہے پردۂ وجود
دل کے لیے ہزار سُود ایک نگاہ کا زیاں

معنی

ازل: جب زمانہ کا وجود نہیں تھا۔
حسنِ ازل: حق کا پہلا ظہور۔
وجود: ہونا، مراد انفُس و آفاق۔
نمود: آہستہ آہستہ ظاہر ہونا۔
سُود: نفع، بہتری۔ زیاں: نقصان

تشریح

اقبال کہتے ہیں کہ ایسا لگ رہا ہے گویا طلوعِ آفتاب کے ساتھ ہی آہستہ آہستہ حسنِ ازل کا بھی ظہور ہو رہا ہے یعنی یہ منظر جیسے ﷲ کے ظہور کے آغاز کا منظر بننے جا رہا ہے۔ اس طلوعِ آفتاب کے ساتھ دونوں کائنات، انسان کے اندر اور باہر کی دنیا (انفس و آفاق)، میں جو بہت سارے راز اور غیب کے پردے تھے وہ سارے راز فاش اور سارے پردے چاک ہو گئے ہیں۔ ان سب میں دل کو بہت سارے فائدے حاصل ہو رہے ہیں کہ اس پر انفس و آفاق کے راز اور حقیقتیں ظاہر ہو رہی ہیں، اور یہ سارے فائدے ہماری آنکھوں کی ایک نگاہ کے استعمال و زیاں سے حاصل ہو رہے ہیں۔ یہ نگاہ کا زیاں ہمیں منظور ہے کیونکہ اس سے دل کے لئے ہزاروں بیش قیمتی فوائد حاصل ہو رہے ہیں۔

سُرخ و کبود بدلیاں چھوڑ گیا سحابِ شب
کوہِ اِضم کو دے گیا رنگ برنگ طَیلساں

معنی

کبود: نیلا۔
سحاب: بادل۔
کوہِ اِضم: مدینہ منورہ کے پاس ایک پہاڑی کا نام۔
طَیلساں: چادر یا رومال۔

تشریح

رات کو مدینہ منورہ اور اسکے مضافات میں بارش ہو چکنے کے بعد بادل اپنے کچھ ٹکڑے آسمان پر چھوڑ کر چلا گیا ہے اور صبح کے وقت سورج کی شعاعوں میں وہ ٹکڑے لال اور نیلے رنگ میں کوہِ اضم کے اوپر ایسے معلوم ہوتے ہیں جیسے بادل نے پہاڑ کو رنگ برنگی چادریں اُڑھا دی ہے۔ یہ سارے منظر، سورج شعاعوں کی وجہ سے بادل کے ٹکڑوں کا خوبصورت رنگ اور ان ٹکڑوں کا کوہِ اضم پر چھا جانا، دیکھ کر لگتا ہے کہ فطرت خود اپنے آپ کو سجا سنوار رہی ہے۔ اس مضمون کو اقبال نے دوسری نظم کے ایک شعر میں بیان کیا ہے

مِری مشّاطگی کی کیا ضرورت حُسنِ معنی کو
کہ فطرت خود بخود کرتی ہے لالے کی حِنابندی


گرد سے پاک ہے ہوا، برگِ نخیل دھُل گئے
ریگِ نواح کاظمہ نرم ہے مثلِ پرنیاں

معنی

نخیل: کھجور کا پیڑ۔

ریگ: ریت، بالو۔

کاظمہ: مدینہ منورہ کا ایک نام۔

پرنیاں: بہت نفیس و نرم ریشمی کپڑا۔

تشریح

کہتے ہیں کہ رات بارش کی وجہ سے ہوا کے گرد و غبار چھٹ گئے ہیں اور ہر شَے بالکل واضح و حقیقی نظر آ رہی ہے۔ اور اس بارش نے کھجوروں کے پتے دھو کر صاف شفاف کر دئے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ مدینہ طیبہ کے آس پاس کے علاقے کا ریتیلا راستہ بارش کے پانی سے ملائم ہو گیا ہے اور اس پر سفر کرنا آسان ہو گیا ہے۔

آگ بُجھی ہُوئی اِدھر، ٹُوٹی ہُوئی طناب اُدھر
کیا خبر اس مقام سے گزرے ہیں کتنے کارواں

معنی

طناب: خیمے کہ رسّی۔

تشریح

اقبال کہتے ہیں کہ جب میں اس راستے پر نکلا تو ہر ہر پڑاؤ کے مقام پر مجھے قافلوں کے سامان ملے، جیسے بجھی ہوئی آگ، ٹوٹی ہوئی رسیاں وغیرہ۔ یہ چیزیں بتا رہی ہیں کہ میں اس رستے پر پہلا مسافر نہیں ہوں بلکہ بہت سے قافلے ہمیشہ سے اس راہ سے گزرتے رہے ہیں۔ یعنی جتنے بھی لوگوں نے حق کی طرف سفر کیا ہے وہ اس پڑاؤ سے ضرور گزرے ہیں۔

آئی صدائے جِبرئیل، تیرا مقام ہے یہی
اہلِ فراق کے لیے عیشِ دوام ہے یہی

معنی

اہلِ فراق: محبوب میں فنا ہونے کے بجائے عاشق کا محبوب کے حضور میں اپنی خودی کے ساتھ رہتے ہوئے خودی کو درجۂ کمال تک پہنچانے کی سعی کرنا۔

تشریح

اقبال کہتے ہیں کہ مدینہ طیبہ کے نواح میں پہنچنے کے بعد جبریل علیہ السلام کی آواز (جو ﷲ کی طرف سے تھی) آئی کہ بس یہیں رک جاؤ، یہی تمہاری آخری منزل ہے۔ اس مقام پر رہ کر ہی تمہارے رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم سے تعلق کے تمام تقاضے پورے ہوتے چلے جائیں گے اور رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے تمہاری ذات اور خودی تکمیل کے نئے مراحل پورے کرتی چلی جائے گی۔

Share with Others

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *