Skip to content

خطاب بہ جوانانِ اسلام

Address To The Muslim Youth

 کبھی اے نوجواں مسلم! تدبّر بھی کِیا تُو نے 
وہ کیا گردُوں تھا تُو جس کا ہے اک ٹُوٹا ہوا تارا

معنی
تدبّر : دور اندیشی، غور و فکر۔
گردوں: آسمان۔
تشریح
اے مسلم نوجوان! کبھی تم نے اس عظیم الشان آسمان کے بارے میں غور و خوض کیا ہے جس کا تو ایک ٹوٹا ہوا ستارا ہے۔ یعنی نہ تو تمہارے پاس اسلاف کی سی عظمت باقی ہے اور نہ ہی بلند کرداری، بلکہ تم ان سب سے عاری ہو چکے ہو۔


 تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوشِ محبّت میں
 کُچل ڈالا تھا جس نے پاؤں میں تاجِ سرِ دارا

تشریح
اے نوجوان! تمہاری پرورش ان اسلاف کی گود میں ہوئی ہے جنھوں نے اپنے دور کی سب سے بڑی سیاسی قوت سلطنتِ ایران اور اسکی تہذیب کو اپنے پاؤں تلے روند ڈالا تھا۔دارا ایران کا ایک طاقتور ترین بادشاہ تھا جس کو سکندر نے شکست دے کر اس کا سر قلم کر دیا تھا. لیکن وہ ایرانی سلطنت اور تہذیب کو ختم نہ کر سکا۔ اس ایرانی سلطنت اور تہذیب کا خاتمہ مسلمانوں کے ہاتھوں ہوا جو دارا کے بعد سے چلی آ رہی تھی۔


 تمدّن آفریں، خلاّقِ آئینِ جہاں داری 
وہ صحرائے عرب یعنی شتربانوں کا گہوارا

معنی
تمدن آفریں: سماجی نظام بنانے والا۔ خلاق: بنانے والا۔ جہاں داری: حکومت۔ شتربان: اونٹ کی لگام تھامنے والے۔تشریحتمہارے اسلاف وہ لوگ ہیں جنھوں نے دنیا کو ایک نئے تہذیب و تمدن اور سماجی نظام کی بنیاد رکھی، اور دنیا میں علوم و فنون کو عام کیا۔ دنیا کو ایک نئی طرزِ حکومت اور قوانین سے روشناس کرایا۔ لیکن یہ سب کچھ کرنے والے لوگ کون تھے، جو کبھی عرب کے ریگستانوں میں اونٹ کی لگام تھامے ہوئے چلتے تھے۔ یعنی اونٹوں کی لگام تھامنے والوں نے دنیا کو ایک نئے رخ پر چلایا ہے۔


 سماں الفقرُ فَخرْی کا رہا شانِ امارت میں 
“بآب و رنگ و خال و خط چہ حاجت رُوے زیبا را”

معنی
سماں: کیفیت۔
الفقر فخری: فقر میرا فخر ہے (حدیث)۔
ِامارت: حکومت۔
تشریح
ان تمام تر عظمتوں اور حکومتوں کے باوجود بھی تمہارے اسلاف نے درویشی اور فقر (بےنیازی) و سادگی کو ہی اپنا شعار اور پہچان بنایا جو کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کا بھی شعار تھا۔ اور جس انسان کے پاس فقر و بےنیازی جیسا زیور اور زیبائش موجود ہو اسے پھر کسی اور قسم کی سجاوٹ، زیبائش یا آرائش کی کیا ضرورت؟نوٹ: اس شعر کا دوسرا فارسی مصرعہ حافظ شیرازی کا ہے۔


 گدائی میں بھی وہ اللہ والے تھے غیور اتنے
 کہمنعم کو گدا کے ڈر سے بخشش کا نہ تھا یارا

معنی
گدائی: فقیری۔
غیور: بہت غیرت کرنے والا۔
منعم: دنعمت دینے والا، مالدار۔
بخشش: انعام، مدد۔
یارا: حوصلہ، طاقت۔
تشریح
اے مسلم نوجوان! تمہارے اسلاف فقیری اور بے سرو سامانی کی کیفیت میں بھی اتنے خود دار اور غیرت مند تھے کہ مالداروں اور امیروں کو اس بات کی جرأت نہیں ہوتی تھی کہ وہ ان کو انعام و اکرام سے نوازیں یا کوئی مدد کر سکیں۔ اور اگر کسی نے ایسا کرنے کی جرأت کی تو وہ ‘اللہ والے’ ان سے ناراضگی کا اظہار کرتے تھے۔


غرض مَیں کیا کہُوں تجھ سے کہ وہ صحرا نشیں کیا تھے
 جہاں‌گیر و جہاں‌دار و جہاں‌بان و جہاں‌آرا

معنی
صحرا نشیں: جنگل یا ریگستان میں رہنے والے۔
جہاں گیر: دنیا کو فتح کرنے والا۔
جہاں دار: بادشاہ۔
جہاں بان: دنیا کی حفاظت کرنے والا۔
جہاں آرا: دنیا کو آراستہ کرنے والا۔
تشریح
علامہ کہتے ہیں کہ میں تم کو کیا بتاؤں ان لوگوں کے بارے میں اور ان کی صفات کے بارے میں کہ وہ ایک طرف دنیا کو فتح کر رہے تھے اور فتح کی ہوئے علاقوں پر اور عوام کے دلوں پر حکومت کر رہے تھے تو دوسری طرف وہ دنیا اور انسانیت کے محافظ اور نگہبان بھی تھے، اور وہی اس دنیا کو آراستہ کر رہے تھے اور دنیا کو ترقی کی نئی بلندیوں تک لے جا رہے تھے۔ ایسے تھے وہ صحرا میں رہنے والے لوگ۔


 اگر چاہوں تو نقشہ کھینچ کر الفاظ میں رکھ دوں 
مگر تیرے تخیّل سے فزوں تر ہے وہ نظّارا

معنی
تخیل: وہ قوت جو خیالی صورت بنا کر ہمارے وہم کے سامنے رکھ دے، تصور۔
فزوں تر: بہت زیادہ دور یا پرے۔
تشریح
اقبال کہہ رہے ہیں کہ میں چاہتا ہوں کہ وہ سارا منظر اپنی قلم سے بیان کر دوں لیکن تمہاری پستی اور تخیل کی وجہ سے تم اس کو سمجھنے سے قاصر رہوگے۔


 تجھے آبا سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی 
کہ تو گفتار وہ کردار، تو ثابت وہ سیارا

معنی
آبا: باپ دادا، اسلاف۔
نسبت: تعلق۔
گفتار: بول چال، بات۔
کردار: طرز، سیرت۔
ثابت: وہ ستارہ جو گردش نا کرے، رکا ہوا۔
سیارہ: گردش کرنے والا ستارہ۔
تشریح
اقبال کہہ رہے ہیں کہ اے مسلم نوجوان! تمہارے اسلاف کے عادات و اطوار اور کام کو دیکھا جائے تو ان میں اور تم میں نہ تو کوئی تعلق ہے اور نہ ہی کوئی مشترک خصوصیات نظر آتی ہیں۔ تم صرف باتیں کرتے ہو اور گفتار کے غازی ہو جبکہ تمہارے اسلاف کی سیرت بہت بلند ہے، وہ کردار کے غازی تھے۔ وہ ہمیشہ باعمل اور متحرک رہتے تھے اور تم ثابت اور ساکت ہو۔ تم میں اور ان میں کوئی نسبت ہے ہی نہیں۔


 گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
 ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا

معنی
ثریا: سات ستارے جو پاس پاس رہتے ہیں، مراد بلندی۔
تشریح
اگر ہم آج امت مسلمہ کی حالت زار کا جائزہ لیں اور پستی کی وجہ تلاش کریں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ہم اپنے اسلاف سے ملی ہوئی میراث کی حفاظت نہ کر پائے۔ اس لئے اس آسمان نے ، جہاں ہمارے اسلاف تھے، ہمیں بلندیوں سے پستی کی طرف پھینک دیا ہے۔


حکومت کا تو کیا رونا کہ وہ اک عارضی شے تھی 
نہیں دنیا کے آئینِ مسلم سے کوئی چارا 
مگر وہ عِلم کے موتی، کتابیں اپنے آبا کی
 جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا

معنی
مسلّم: ثابت شدہ، تسلیم کیا گیا۔
سیپارہ: ٹکڑے ٹکڑے۔
تشریح
اگر آج مسلمانوں کے ہاتھوں سے دنیا کی امامت اور حکومت چھن گئی ہے تو بہت زیادہ رونے اور افسوس کرنے بات نہیں ہے کیونکہ یہ ایک عارضی اور وقتی چیز تھی، اللہ تعالیٰ اس دنیا میں لوگوں امتحان لینے اور دنیا میں اصلاح کو فروغ دینے کے لئے حکومت کو ایک قوم سے دوسری قوم میں منتقل کرتا رہتا ہے اور یہ قانون ازل سے ہے۔لیکن مسلمانوں کو جس چیز کے کھو جانے کا افسوس ہونا چاہئے وہ اسلاف کی میراث (علوم و فنون) اور انکی کتابیں ہیں۔ میں جب ان علوم اور کتابوں کو یورپ میں دیکھتا ہوں تو رنج و غم کی وجہ میرا دل پارہ پارہ ہو جاتا ہے کہ ہمارے علوم سے ہم بےگانہ ہیں اور دوسرے اس سے فیض یاب ہو رہے ہیں۔


غنیؔ! روزِ سیاہِ پیرِ کنعاں را تماشا کن
 کہ نورِ دیدہ اش روشن کند چشمِ زلیخا را

تشریح
یہ فارسی شعر مغلیہ دور کے مشہور شاعر غنیؔ کاشمیری کا ہے۔ اس شعر کے ذریعہ علامہ اقبال نے مندرجہ بالا کیفیت کو تشبیہ دی ہے۔اے غنی! پیرِ کنعاں (حضرت یعقوب علیہ السلام) کی کیسی بدقسمتی ہے کہ ان کی آنکھوں کا نور (حضرت یوسف علیہ السلام ) زلیخا کی آنکھوں کو روشن کر رہا ہے۔


Address To The Muslim Youth
غرض مَیں کیا کہُوں تجھ سے کہ وہ صحرا نشیں کیا تھے
 جہاں‌گیر و جہاں‌دار و جہاں‌بان و جہاں‌آرا
Share with Others

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *