Skip to content

Reason and Heart/عقل و دل

عقل و دل

عقل     

عقل نے ایک دن یہ دل سے کہا
بھُولے بھٹکے کی رہنما ہُوں میں
ہوں زمیں پر، گزر فلک پہ مرا
دیکھ تو کس قدر رسا ہوں میں
کام دنیا میں رہبری ہے مرا
مثل خضرِ خجستہ پا ہوں میں
ہوں مفسِّر کتابِ ہستی کی
مظہرِ شانِ کبریا ہوں میں
بوند اک خون کی ہے تُو لیکن
غیرتِ لعلِ بے بہا ہوں میں

معنی

رسا: پہنچنے والا،مراد میری پہنچ بہت دور تک ہے
خضر:ایک روحانی بزرگ کا نام جو بھولوں بھٹکوں کو رستہ دکھاتے ہیں
خجستہ: مبارک، مسعود
مفسر:تفسیر کرنے والا

کتابِ ہستی: (مادی) دنیا  کے حقائق کی  کتاب
مظہر شان کبریا: اللہ کی شان کی مظہر
غیرتِ لعلِ بے بہا : بیش قیمت لعل سے بڑھ کر ہوں رؔاز ہستی یعنی کائنات کی حقیقت۔

شرح

نظم کا آغاز عقل کی زبانی ہوتا ہے جو دل سے ایک دن یوں گویا ہوتی ہے کہ جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے تو یہ جان لے کہ اُن لوگوں کی رہنمائی کے فرائض انجام دیتی ہوں جو اپنے صحیح راستے سے بھٹک کر غلط راہ پر چل پڑے ہیں۔ بےشک میرا وجود زمین پر قائم ہے۔ اس کے باوجود میری پہنچ آسمانوں تک ہے کہ میں اپنی قوت استدلال کے سبب زمین پر رہتے ہوئے بھی آسمان کی وسعتوں اور اُن کے عوامل سے پوری طرح آگاہ رہتی ہوں۔ اِس دنیا میں میرا کام تو ان لوگوں کی صحیح رہبری کرنا ہے جو اپنی راہ سے بھٹک چکے ہیں۔ یوں میری حیثیت حضرت خضر علیہ السلام کے مبارک قدم  کی سی ہے جن کے  نقوش دنیا کے لئے راہِ نجات کی حیثیت رکھتے ہیں اور لوگ ان نشانات کو چومتے ہوئے چلتے ہیں۔ اگر زندگی کو ایک صحیفہ تصور کر لیا جائے تو یہ جان لے کہ میں اُس کی تفسیر کی اہلیت رکھتی ہوں۔ یہی نہیں بلکہ شان خداوندی کا اظہار بھی میرے ہی دم سے ہوتا ہے۔ تیری حیثیت تو اے دل بس اتنی ہی ہے کہ تو خون کی ایک بوند کی مانند ہے جبکہ میرا وجود ایک نایاب لعل کی طرح ہے جس کی قیمت کوئی ادا نہیں کر سکتا۔


دل

دل نے سُن کر کہا یہ سب سچ ہے
پر مجھے بھی تو دیکھ، کیا ہوں میں
رازِ ہستی کو تُو سمجھتی ہے
اور آنکھوں سے دیکھتا ہوں میں!
ہے تجھے واسطہ مظاہر سے
اور باطن سے آشنا ہوں میں
عِلم تجھ سے تو معرفت مجھ سے
تُو خدا جُو، خدا نما ہوں میں
علم کی انتہا ہے بے تابی
اس مرض کی مگر دوا ہوں میں
شمع تُو محفلِ صداقت کی
حُسن کی بزم کا دِیا ہوں میں
تُو زمان و مکاں سے رشتہ بپا
طائرِ سِدرہ آشنا ہوں میں

معنی

باطن: پوشیدہ،  چھپا پوا
علم:جاننا 
معرفت: پہچاننا، یہاں اس سے مراد حقیقت سے آشنا ہو جانا
خدا جو : خدا کو تلاش کرنے والا،    خدا نما : خدا کو معلوم کرنے والا
بے تابی: اس جگہ شک و شبہ یا حیرت و پریشانی 
صداقت: حقائق جو علم یا فلسفہ کے بدولت حاصل ہوتے ہیں 
حسن کی بزم: عاشقانہ زندگی مرادہے
بپا : قائم
طائرہِ  سدرہ :  حضرتِ جبریل  ؑ  جن کا مقام سدرہ پر ہے
آشنا : جاننا، پہچاننا

شرح

عقل کی زبان سے یہ الفاظ سن کر دل نے جواب دیا کہ تو نے جو کچھ کہا ہے بےشک درست ہو گا لیکن تو نے میری حقیقت کو جاننے کی بھی کوشش نہیں کی، نا ہی اس امر کا تجزیہ کر سکی کہ فی الواقع میں کیا شے ہوں ؟ مانا کہ زندگی کے اسرار کا تجھ کو ادراک ہے لیکن یہ نہ بھول کہ میں تو ان کو خود اپنی نگاہِ بصیرت سے دیکھنے کا اہل ہوں۔ تیرا واسطہ تو محض ظاہری اشیاء سے ہے جبکہ میں داخلی سطح پر ہر شے کے باطن سے آشنا رہتا ہوں۔ اس حقیقت کو تسلیم بھی کر لیا جائے کہ تیرہ دائرہ کار علم ہے تو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ کائنات کے اسرار و رموز کی پہچان کا منبع میں ہوں  ، تو خدا کی جستجو میں سرگرداں رہتی جبکہ خدا کی معرفت حاصل کرنے کا عمل بھی تیرے بجائے میرے وجود سے وابستہ ہے۔
اے عقل! یہ بھی جان لے کہ علم جب اپنی انتہا کو پہنچ جاتا ہے تو اس کا ردعمل اضطراب اور بے چینی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے لیکن یہ تو محض ایک عارضہ ہے چنانچہ میری ذات ہی اس مرض کے لیے مسیحا کی حیثیت رکھتی ہے۔  تو اگر سچائی کی محفل میں شمع کی مانند ہے تو میں بھی عشق کی انجمن  میں ایک روشن چراغ کی حیثیت رکھتا ہوں۔  اگلے شعر میں دل یوں گویا ہوتا ہے کہ اے عقل! اگر تیری رسائی زمان و مکان تک ہے تو یہ حقیقت بھی نہ بھول کہ میری پرواز ان مراحل تک ہے جہاں زمان و مکان کی تمام حدود ختم ہو جاتی ہیں۔  بس اس سے زیادہ میں اور کیا کہہ سکتا ہوں کہ میرا مرتبہ و مقام انتہائی بلند و ارفع ہے۔  بس تُو اتنا جان لے کہ میرا وجود تو رب ذوالجلال  کے عرش کی مانند ہے۔ مراد یہ ہے کہ اے عقل تو بڑی حد تک خوش فہمیوں کا شکار ہے جبکہ میں فطرت کی حقیقتوں سے پوری طرح آشنا ہوں اور اُن کا مکمل ادراک رکھتا ہوں۔


آخری مصرعہ

کس بلندی پہ ہے مقام مرا
عرش ربِّ جلیل کا ہوں میں

شرح

آخری اور سب سے بڑا فرق عقل اور دل میں یہ ہے کہ عقل تو خدا کی ہستی میں شکوک پیدا کرتی رہتی ہے لیکن دل یہ وہ مکان ہے جہاں خود اللہ رہتا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ  خدا عقل کی بدولت نہیں مل سکتا اگر کسی کو  خدا سے ملنا ہو تو عشق کا راستہ اختیار کرے۔


Share with Others

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *