Skip to content

The Assembly of Stars/بزمِ انجم

The Assembly of Stars

اس نظم میں اقبال نے تاروں کی زبان سے زندگی کا راز فاش کیا ہے یعنی یہ کہ مسلمان اگر بحثیت قوم ترقی کرنا چاہتے ہیں تو تاروں کی زندگی سے سبق لے سکتے ہیں ان کا نظام جذب باہمی سے قائم ہے اسی طرح مسلمان بھی الفتِ باہمی کی بدولت ترقی کر سکتے ہیں

پہلا بند

سورج نے جاتے جاتے شامِ سیہ قبا کو
طشتِ افق سے لے کر لالے کے پھول مارے
پہنادیا شفق نے سونے کا سارا زیور
قدرت نے اپنے گہنے چاندی کے سب اتارے
محمل میں خامشی کے لیلائے ظلمت آئی
چمکے عروسِ شب کے موتی وہ پیارے پیارے
وہ دور رہنے والے ہنگامۂ جہاں سے
کہتا ہے جن کو انساں اپنی زباں میں ‘تارے’
محوِ فلک فروزی تھی انجمن فلک کی
عرش بریں سے آئی آواز اک ملک کی

معنی
شامِ سیہ قبا:  کیونکہ شام کے وقت سیاہی چھا جاتی ہے اس لئے شاعر نے شام کو سیہ قبا پہنائی ہے۔
طشت: تھال۔
لالہ: ایک قیمتی پتھر۔
عروسِ شب: رات کی دلہن یا بہت خوبصورت رات۔
محوِ فلک فروزی: تارے آسمان کو چمکانے میں مصروف تھے۔
ملک: فرشتہ۔

 
شرح
اس نظم میں شاعر نے تشبیہ کا بکثرت استعمال کیا ہے۔ شاعر کہتا ہے جب سورج رخصت ہو رہا تھا تو شام کو ایک سیاہ چادر ملبوکر دیا اور اس نے اس طرح چاروں لالی پھیلا دی گویا شام پر پھولوں کی بارش کر رہا ہو۔ آسمان نے اس شام کو تاروں کی شکل میں سونے کے زیور عطا کر دیے اور قدرت نے دن کے اجالے نما چاندی کے زیور اتار دیے۔ محمل میں رات کی تاریکی کی آمد کی وجہ سے خاموشی چھائی ہوئی ہے اور اس خاموشی میں دلہن نما جیسی ہوئی رات کے تارے موتیوں کی طرح چمکنے لگے۔ یہ تارے اس زمین کی بھیڑ اور شورش سے بہت دور ہیں۔ ان تاروں نے اپنی سے اس فلک کو روشن کیا ہوا تھا اتنے میں آسمان سے ایک فرشتہ کی آواز آتی ہے۔


دوسرا بند

اے شب کے پاسانو، اے آسماں کے تارو 
تابندہ قوم ساری گردوں نشيں تمھاری
چھیڑو سرود ایسا ، جاگ اٹھیں سونے والے
رہبر ہے قافلوں کی تابِ جبیں تمھاری
آئینے قسمتوں کے تم کو یہ جانتے ہیں
شاید سنیں صدائیں اہل زمیں تمھاری
رخصت ہوئی خموشی تاروں بھری فضا سے
وسعت تھی آسماں کی معمور اس نوا سے

معنی
گردوں نشیں: آسمانوں میں رہنا۔
تابندہ: چمکتی ہوئی۔
سرود: نغمہ، گیت۔

شرح
فرشتہ تاروں کو مخاطب کر کے کہتاہے کہ اے تاورں تم سب گردوں نشیں (معزز) ہو اس وقت کوئی ایسا نغمہ چھیڑو کہ زمین کے باشندے بیدار ہو جائیں اور انسان تم کو دیکھ کر اپنا سفر بھی طے کرتے ہیں، چونکہ وہ لوگ سمجھتے ہیں کہ تم ان کی قسمتوں پر اثرانداز ہو ۔اس لئے مجھے توقع ہے کہ وہ ضرور تمہارے پیام (نغمہ) کو سنیں گے۔فرشتہ کی بات سن کر ستاروں نے نغمہ شروع کیا اور آسمان کی خاموشی جاتی رہی۔


تیسرا بند

”حسن ازل ہے پیدا تاروں کی دلبری میں
جس طرح عکس گل ہو شبنم کے آرسی میں
آئینِ نو سے ڈرنا ، طرز کہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
یہ کاروان ہستی ہے تیز گام ایسا
قومیں کچل گئی ہیں جس کی رواروی میں
آنکھوں سے ہیں ہماری غائب ہزاروں انجم
داخل ہیں وہ بھی لیکن اپنی برادری میں
اک عمر میں نہ سمجھے اس کو زمین والے
جو بات پا گئے ہم تھوڑی سی زندگی میں
ہیں جذبِ باہمی سے قائم نظام سارے
پوشیدہ ہے یہ نکتہ تاروں کی زندگی میں

معنی
شبنم آرسی: شبنم کے قطرہ میں گلاب کا عکس نظر آتا ہے اس لئے شاعر نے قطرہ شبنم کی آرسی یا آئینہ باندھا ہے۔
آئین نو: نیا قانون۔
طرز کہن: اجتماعی زندگی کا پرانہ طریقہ۔
اڑنا:قائم رہنا۔
تیز گام: تیز چلنے والا۔
رواروی: ہنگامہ انقلاب یا حرکت۔
جذب باہمی: باہمی الفت۔

شرح
تاروں کی چمک دمک میں خدا کی قدرت کا جلوہ نظر آتا ہے بلکہ خدا کا عکس تاروں میں اسی طرح نظر آتا ہے جس طرح گلاب کا عکس شبنم کے آئینہ میں۔ جو قوم لکیروں کی فقیر بنی رہتی ہے اور حالات حاضرہ سے مطابقت نہیں کرتی، رحمت کے تقاضوں کو نہیں پہچانتی ،وہ ترقی نہیں کر سکتی۔ زمانہ ہر وقت آگے بڑھتا رہتا ہے جو قومیں زمانہ کا ساتھ نہیں دیتیں اور اپنی جگہ بے حس پڑی رھتی ہیں ان کے اس جمود کا نتیجہ اس کے سوا کچھ نہیں نکلتا کہ دوسری قومیں ان کو کچلتی ہوئی آگے بڑھ جاتی ہیں۔
 
جو ستارے اس وقت ہماری نظروں سے اوجھل ہیں ہم ان کو بھی اپنی برادری (جماعت) میں شامل سمجھتے ہیں! افسوس اس نکتہ کو زمین والے اب تک نہیں سمجھے،مطلب اس کا یہ ہے کہ مسلمانوں کو لازم ہے صرف انہیں مسلمانوں کو اپنا بھائی نہ سمجھیں جو ان کی نظروں کے سامنے ہیں(ان کے شہر میں رہتے ہیں بلکہ تمام دنیا کے مسلمانوں کو اپنا بھائی سمجھیں۔) مسلمانوں کا قومی نظام صرف اس صورت میں قائم رہ سکتا ہے کہ وہ جذب باہمی کے اصولوں پر عمل کریں یعنی آپس میں سب مسلمان (از ہند تا مراقش) ایک دوسرے سے محبت کریں اور ہر مسلمان دوسرے مسلمان کو اپنا بھائی سمجھے۔
خلاصئہ کلام یہ ہے کہ اس نظم میں اقبال نے مسلمانوں کو تنظیم اور ربط و ضبطِ باہمی کا پیغام دیا۔


Share with Others

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *