Skip to content

The Present Civilization/تہذیب حاضر

تہذیب حاضر


(تضمین بر شعر فیؔضی)

علامہ قبال نے اس نظم میں تہذیب مغرب کے مفاسد اور مصائبسے قوم کے نوجوانوں کو آگاہ کیا ہے۔

پہلا بند

حرارت ہے بلا کی بادۂ تہذیبِ حاضر میں
بھڑک اٹھا بھبوکا بن کے مسلم کا تن خاکی

معنی
تضمین: دوسرے شاعر کے شعر پر بند یا مصرع  لگانا۔
بادہ: شراب۔
بھبھوکا: ہندی لفظ ہے یعنی آگ کا شعلہ۔

شرح
اقبال  مغربی تہذیب کو شراب سے تشبیہ دیتے ہوئے  کہتے ہیں کہ مغربی تہذیب کے اثرات   کے نشے نے، جس کی بنیاد مادہ پرستی ہے،مسلم نوجوانوں کے جذبات کو اس قدر برانگیختہ کر دیا ہے کہ وہ اسلام کے دائر ہ اعتدال سے باہر ہو تے  جا رہے  ہیں۔


دوسرا بند

کیا ذرّے کو جگنو دے کے تابِ مستعار اس نے
کوئی دیکھے تو شوخی آفتاب ِجلوہ فرما کی

معنی
مستعار: مانگی ہوئی چمک۔
آفتابِ جلوہ فرما: تہذیبِ مغریب مراد ہے۔

شرح
  اس تہذیب کا ظاہری پہلو یہ ہے کہ یہ تہذیب ادھار کی روشنی سے اس قوم کے ذرّوں کو منور کرتی ہے اور بدلے میں انکے جوہر  چھین لیتی ہے، دیکھنے والوں کو قوم کے نوجوانوں کی زندگیاں بڑی کامیاب نظر آتی ہیں بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ بڑی ترقی کر رہے ہیں حالانکہ معاملہ بالکل دگرگوں ہے۔


تیسرا بند

نئے انداز پائے نوجوانوں کی طبیعت نے
یہ رعنائی ،یہ بیداری، یہ آزادی ، یہ بے باکی
معنی

رعنائی: فیشن، چمک دمک۔
شرح
ان کی طبیعت میں انقلاب عظیم پیدا ہو گیا ہے چنانچہ ان کی زندگی میں جو یہ فیشن پرستی،آزادی،بیداری اور بےباکی نظر آتی ہے یہ سب اس تہذیب کا کرشمہ ہے۔


چوتھا بند

تغیر آگیا ایسا تدبر میں، تخیل میں
ہنسی سمجھی گئی گلشن میں غنچوں کی جگر چاکی

معنی
تدبّر: کسی معاملہ کے سارے پہلوؤں اور اس کے نشیب و فراز اور انجام پر غور کرنا کہ اس کا نتیجہ کیا ہوگا۔
تخیل: افکار و خیال مراد ہے۔

شرح
ان خیالات اور افکار میں اس قدر بے راہ روی پیدا ہو گئی ہے کہ وہ اب بزرگوں کی نصیحت کو خاطر ہی میں نہیں لاتے ہیں اور ان کی قربانیوں و خدمات کو حقارت و تمسخر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں   اور اس نشیب کو وہ فراز سمجھ بیٹھے ہیں۔


پانچواں بند

کیا گم تازہ پروازوں نے اپنا آشیاں لیکن
مناظر دلکشا دکھلا گئی ساحر کی چالاکی

معنی
تازہ پرواز: نئی اڑان، مراد مغرب سے متاثر نوجوان نسل ۔
ساحر: جادوگر، مراد انگریزی حکومت ۔

شرح
لیکن حقیقت حال یہ ہے کہ اس تہذیب  کے جھوٹے دلکش مناظر کی  بدولت نوجوانانِ اسلام  اپنی مستحکم  ملّی روایات اور اسلام کے وضع کردہ بلند ترین اصولوں  سے بالکل بےگانہ ہو چکے ہیں اور اب انہیں اپنے اسلاف کے طریقوں سے کوئی وابستگی باقی نہیں رہی ہے۔


چھٹا بند

حیات ِتازہ اپنے ساتھ لائی لذتیں کیا کیا
رقابت،  خودفروشی،  ناشکیبائی ، ہوسناکی

معنی
حیاتِ تازہ:  نئی زندگی،مراد تہذیبِ مغرب
رقابت: مخالفت، دشمنی
خود فروشی: اپنی خودی کو بیچنا
 ناشکیبائی:  بے صبری، بے قراری
ہوسناکی:      طمع، لالچ۔

شرح
اب ان کی زندگی میں ہمدردی کے بجائے رشک و حسد غیرت کے بجائے خودفروشی،صبر و استقلال کے بجائے ناشکیبائی اور ضبطِ نفس کے بجائے ہوسنا کی کافرما ہے  یعنی مسلم نوجوانوں نہ   صرف یہ کہ ایک دوسرے سے حسد کرنے لگے ہیں بلکہ انھوں نے چھوٹے چھوٹےمفادات کی خاطر خود کو غیروں کے ہاتھوں بیچ دیا ہے،  وہ اس قدر نا شکرے بن چکے ہیں کہ لالچ اور  حرص و ہوس نے انکی تمام اخلاقی قدروں کو برباد کر دیا ہے۔


ساتواں بند

فروغِ شمعِ نَو سے بزمِ مسلم جگمگا اٹھی
مگر کہتی ہے پروانوں سے میری کہنہ اِدراکی

معنی
فروغِ شمع نو : مراد مغربی تہذیب کی ظاہری چمک دمک ۔
بزم مسلم: مراد مسلمان قوم ۔
پروانوں : کالج کے نو جوان مراد ہیں۔
کہنہ ادراکی: عقل و فہم  جو تجربہ کی بنا پر پایہ تکمیل کو پہنچتی ہے۔

شرح
اگر چہ اس تہذیب کی بنا پر ہر طرف ترقی کاشور برپا ہے اور بیداری کے آثار نظر آرہے ہیں اس کے باوجود میں اپنی قوم کے نوجوانوں سے کچھ کہنا چاہتا ہوں جو اس بزم نو کی شمع کا  پروانہ وار طواف کر رہے ہیں۔


آٹھواں بند

تو اے پروانہ ایں گرمی ز شمعِ محفلے داری
چو من در آتشِ خود سوز اگر سوزِ دلے داری

شرح
یہ فارسی شعر ابوالفیض  فیضیؔ دکنی کا ہے  جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ اے پروانے تیری یہ گرمی محفل کی  شمع سے حاصل کی ہوئی ہے، اگر تو واقعی سوزِ دل (عشق) رکھتا تو میری طرح اپنی ہی آگ میں جل۔
                                                                                                                                                                                                                                                         اس شعر کے علامہ اقبال یہ پیغام دے رہے ہیں کہ اے مسلم نوجوانوں!یہ جو کچھ ترقی تم کر رہے ہو ، یہ تمہاری ذاتی خوبی کی بنا پر نہیں ہے تم نے اپنے آپ کو مستعار لباس سے آراستہ کر رکھا ہے اگر تم واقعی ترقی کے آرزومند ہو تو غیروں کی تہذیب کے بجائے اپنی قومی روایات پر عامل ہو کر دنیا میں عزت حاصل کرو یعنی مسلمان رہ کر دنیا میں چمکو تو یہ قابلِ فخر بات ہے۔

Share with Others

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *