Skip to content

The Story of Adam/سر گزشت آدم

سر گزشت آدم


پہلا شعر

سنے  کوئی مری غربت کی داستاں مجھ سے
 بھلایاقصۂ  پیمانِ اولیں میں نے

یعنی
غربت:وطن سے دوری، بے چارگی۔
 پیمانِ اولیں:   اول یا  پہلا وعدہ یعنی وہ وعدہ جو اللہ نے بنی آدم سے لیا تھا  اسے بناتے وقت۔اللہ نے کہا کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ سب نے ایک زبان ہو کر “ہاں” کہا تھا۔
 
شرح
مطلب یہ ہے کہ انسان نے دنیا میں آکر اس پیمان کو بھلا دیا  اور بنی آدم کی اکثریت شرک میں مبتلا ہو گئی۔حالانکہ خدا سے وعدہ کیا تھا کہ ہم تیرے سوا کسی کو اپنا معبود نہیں بنا ئیں گے۔


دوسرا شعر

لگی  نہ میری طبیعت ریاضِ جنت میں
 پیاشعور کا جب جامِ آتشیںِ میں نے

معنی
ریاضِ جنت: جنت کے باغ۔
  شعور: عقل، دانش۔
  آتشیں : آگ یا آگ کی طرح سرخ اور گرم۔

 
شرح
جنت میں تمام تر آسائشوں اور نعمتوں کے باوجود جب آدم ؑ اور حوا ؑ کے اندر شعورِ ذاتی یعنی لا محدود زندگی کی فکر  پیدا ہو گئی تو ان کا دل جنت سے اچاٹ ہو گیا۔ اس شعر میں اشارہ ہے ان دونوں کے جنت سے اخراج کی طرف۔


تیسرا  شعر

رہی  حقیقت عالم کی جستجو مجھ کو
 دکھایا اوجِ خیال فلک نشیں میں نے

شرح

دنیا میں آکر انسان کو ذاتی شعور کی بنا پر اس دنیا کی حقیقت کی تحقیق و تلاش کا جذبہ پیدا ہو گیا اور اس سلسلہ میں اس نے اپنے تخیلات کو آسمان کی بلندیوں تک پہنچا کراپنے شعور کی بلندی کا ثبوت دینا شروع کیا۔


چوتھا شعر

ملا  مزاج تغیر پسند کچھ ایسا
کیا قرار نہ زیر فلک کہیں میں نے

شرح

چونکہ انسان کی فطرت تبدیلی کی طرف مائل ہوتی ہے  اس لئے انسان اس زمین پر جہاں بھی گیا  ا س نے ایک سے حالات میں رہنا گوارا نہیں  کیا ، ہمیشہ زندگی  کے نشیب و فراز طے کرتا رہا ہے۔


پانچواں شعر

نکالا  کعبے سے پتھر کی مورتوں کو کبھی
 کبھی  بتوں کو بنایا حرم نشیں میں نے

شرح

اس شعر میں حضرت فتحِ  مکہ کی طرف اشارہ ہے ۔ ایک وقت جب انھیں انسانوں (قریش)نے بیت اللہ کے اندر 360 بت رکھے اور اسکے  بعد ایک دوسرے گروہ  (محمد ؐ اور صحابہ)نے کعبہ کو ان بتوں کی گندگی سے  پاک کیا۔  یعنی انسان کے تخیلات کتنی تیزی کے ساتھ تغیر پذیر ہوتا ہے کہ ایک وقت بت گری کرنے لگتا ہے اور دوسرے لمحہ بت شکن ہو جاتا ہے۔


چھٹا شعر

کبھی  میں ذوق تکلم میں طور پر پہنچا
چھپایا نورِ ازل زیر آستیں میں نے

معنی

ذوقِ تکلم : (اللہ سے) بات کرنے کا شوق ۔

شرح

اس شعر میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف اشارہ ہے ۔ اللہ نے موسیٰ ؑ کو  “ید بیضا” کا معجزہ عنایت فرمایا ۔وہ اللہ سے ہم کلامی کی آرزو میں کوہ طور پر تشریف لے گئے ۔ 


ساتوں شعر

کبھی صلیب پہ اپنوں نے مجھ کو لٹکایا
 کیا  فلک کو سفر، چھوڑ کر زمیں میں نے

شرح

س شعر میں حضرت عیسیٰ کی زندگی کی طرف اشارہ ہے۔ یعنی یہودیوں نے انہیں اپنی دانست میں صلیب پر چڑھا   دیا لیکن اللہ نے انہیں اس ذلت سے بچا کر آسمان پر پہونچا دیا۔


آٹھواں شعر

کبھی میں غار حرا میں چھپا رہا برسوں
 دیا جہاں کو کبھی جامِ آخریں میں نے

شرح

اس شعر میں حضرت محمد ؐ کی  حیات طیبہ کی طرف اشارہ ہےکہ حضرت محمدؐ نے قبل نبوت کئی سال تک غارِ حرا میں خلوت اختیار فرمائی۔ یہیں آپؐ کو نبوت سے سرفراز کیا گیا اور  دنیا کو جامِ  آخریں  (قرآن مجید) سے روشناش کرایا۔


نواں شعر

سنایا ہند میں آ کر سرود ربانی
 پسند کی کبھی یوناں کی سر زمیں میں نے

شرح

پہلے مصرعہ میں شری کرشن کی زندگی کی طرف شارہ ہے کہ انہوں نے اہل ہند کو توحید کا پیغام سنایا۔ سرود ربانی سے ان کی بانسری کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ دوسرے مصرعہ میں افلاطون کی طرف اشارہ ہے کہ جس نے اہل یونان کو توحید کا درس دیا۔


دسواں شعر

دیارِ ہند نے جس دم مری صدا نہ سنی
بسایا خطۂ جاپان و ملک چیں میں نے

شرح

اس شعر میں گوتم بدھ کی طرف اشارہ ہے جس نے اہل ہند کو بت پرستی ترک  کرنے کی تلقین کی تھی لیکن جب ہندوؤں نے  تلوار کے زور سے ان کے مذہب کا ہندوستان میں خاتمہ کر دیا تو اس کے پیرو ہندوؤں کے ظلم وستم سے تنگ آکر چین اور جاپان چلے گئے۔


گیارہواں شعر

بنایا ذروں کی ترکیب سے کبھی عالم
خلاف معنیٰ تعلیم اہل دیں میں نے

شرح

اس  شعر میں مشہور فلسفی دیمقراطیس (ڈیموکریٹس) کی طرف اشارہ ہے جس نے چوتھی صدی قبل مسیح میں یہ تعلیم دی تھی کہ اس کائنات کا کوئی خالق نہیں ہے یہ دنیا محض ذرّاتِ مادّ ی کی ترکیب کا نتیجہ ہے چونکہ مادہ کے علاوہ اور کوئی شئے موجود نہیں اس لیے انسان میں روح بھی نہیں ہے۔ مرنے کے بعد وہ ہمیشہ کے لیے فنا ہو جاتا ہے۔ خدا اور روح کا انکار کا نظریہ اہلِ دین کی تعلیمات کے سراسر خلاف ہے۔


بارہوں شعر

لہو سے لال کیا سینکڑوں زمانوں کو
جہاں میں چھیڑ کے پیکارِ عقل و دیں میں نے

شرح

اس شعر میں اسی آویزش کی طرف اشارہ ہے جو ازمنئہ وسطیٰ میں یورپ کے رومن کیتھولک کلیسا(مسیحیت) اور حکما و فلسفہ کے درمیان پیدا ہو گئی تھی۔کلیسا کی تعلیم یہ تھی کہ حق وہ ہے جو کلیسا پیش کرے، اس کے خلاف حکما یہ کہتے تھے کہ حق وہ ہے جو عقل سے ثابت ہو سکے۔ حکما کا خاتمہ کرنے کے لیے کلیسا نے محکمہ احتساب قائم کیا اور کئی سو سال تک ان کے قتل کا سلسلہ جاری رہا بالآخر کلیسا  کو شکست ہوئی اور یورپ میں عقلیت کا بازار گرم ہو گیا۔


تیرہواں شعر

سمجھ میں آئی حقیقت نہ جب ستاروں کی
اسی خیال میں راتیں گزار دیں میں نے

شرح

اس شعر میں گیلیلیو کی تحقیق و تدقیق کی طرف اشارہ ہے۔ اس نے اپنی تحقیق کے لئے اس حد تک خود کو وقف کر دیا تھا کہ وہ پوری پوری رات جاگ کر تاروں اور کہکشاں کے راز و حرکات پر غور کرتا رہتا تھا۔


چودھواں شعر

ڈرا سکیں نہ کلیسا کی مجھ کو تلواریں
سکھایا مسئلہ گردشِ زمیں میں نے

شرح

اس شعر میں پرنکیس کی طرف اشارہ ہے جس نے کلیسا کی مخالفت کے باوجود اپنا نظریہ دنیا کے سامنے پیش کیا کہ آفتاب ساکن ہے اور زمین اس کے گرد گھومتی ہے. کلیسا نے اس تعلیم کی بنا پر اسے کافر قرار دیا اور قتل کی دھمکی دی لیکن اس نے اس کی مطلق پرواہ نہیں کی. یہ حکیم موجودہ علم ہیئت کا بانی ہے اس کے بعد کیبلر, کاپرنیکس ،گلیلیؤ اور نیوٹن نے اس کے نظریہ کی حمایت کی۔


پندرہواں شعر

کشش کا راز ہو یدا کیا زمانے پر
لگا کے آئنۂ عقلِ دور بیں میں نے

شرح

اس شعر میں نیوٹن کی طرف اشارہ ہے جس نے اپنی عمیق تحقیق سے کائنات میں کشش ثقل کا قانون دریافت کیا۔ عقل کی دوربین لگا کر یعنی عقل کی مدد سے۔


سولھواں شعر

کیا اسیر شعاعوں کو ، برق مضطر کو
بنادی غیرتِ جنت یہ سر زمیں میں نے

شرح

اس شعر کے پہلے مصرعہ میں ڈاکٹر روٹجن اور ڈاکٹر  فرینکلن کی ایجاد کی طرف اشارہ ہے۔ اول الذکر کرنے میں اتفاقی طور پر ان شعاعوں کو دریافت کیا تھا جب کہ وہ مختلف قسم کے برقی تجربے کر رہا تھا، چونکہ اس وقت تک ان کی ماہیت سے ناواقف تھا اس لیے اس نے ان کا نام ایکس ریز رکھا آج کل انہیں ریز کے ذریعہ سے جسم کے اندرونی اعضاء کا فوٹو لیا جاتا ہے۔ آخر الذکر نے بجلی، جس سے مختلف  کام لیے جاتے ہیں اور بلب روشن ہوتے ہیں، کے جیسی مفید تحقیقات کی بدولت یہ دنیا جنت کی طرح آسائشوں سے معمور ہوگئی۔


سترھواں شعر

مگر خبر نہ ملی آہ! راز ہستی کی
کیا خرد سے جہاں کو تہ نگیں میں نے

معنی

خرد: عقل، سمجھ۔

شرح

لیکن ان تمام حیرت انگیز ایجادات کے باوجود انسان ہستی کی حقیقت سے آگاہ نہ ہو سکا، خرد سے جہاں کوتہ نگیں کیا معنی تمام دنیا اپنے تصرف میں لے آیا عقل کی بدولت میں نے نوائے فطرت کو مسخر کر لیا لیکن یہ نہ معلوم ہو سکا کہ اس کائنات کا بنانے والا کون ہے؟ اسی بات کو اقبال نے ضربِ کلیم میں یوں بیان کیا ہے
جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا
زندگی کی شبِ تاریک مسخر کر نہ سکا


اٹھارواں بند

ہوئی جو چشمِ مظاہر پرست وا آخر
تو پایا خانۂ دل میں اسے مکیں میں نے

معنی

وا: کھلنا۔
چشمِ مظاہر پرست: صرف ظاہر کو دیکھنے والی آنکھ۔

شرح

لیکن جب میری مظاہر پرست (ظاہر بیں) آنکھ روشن ہو گئی تو مجھے معلوم ہوا کہ میرا اور اس کائنات کا خالق تو میرے دل میں موجود ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ انسان اس حقیقت سے کیسے آگاہ ہو سکتا ہے اس کا جواب یہ ہے کہ عشق کی بدولت ۔
اس نظم کا خلاصہ یہ ہے کہ دنیا کے حاصل کرنے کا طریقہ عقل ہے اور خدا کے حاصل کرنے کا طریقہ عشق۔


Share with Others

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *