پوری ملتِ اسلامیہ کو مخاطب کرتے ہوئے اقبال کہتے ہیں کہ اے مردِ مسلمان! تجھے ملت کی صفوں میں محبت و اسلامی بھائی چارے کی فضا کو فروغ دینا چاہئے۔ اگر بغور جائزہ لیا جائے تو فطرت بھی ملت اسلامیہ کی شیرازہ بندی چاہتی ہے اور اسلامی تعلیمات بھی مسلمانوں کو ایک ملتِ واحدہ کا فرد بنانا چاہتی ہیں۔
ملتِ اسلامیہ کی شیرازہ بندی میں سب سے زیادہ مہلک شے عصبیت، علاقائیت اور وطنیت جیسے باطل نظریات ہیں جو انسانوں میں فساد اور تفریق کا باعث بنتے ہیں۔ اس لئے اے مردِ مومن! تٗو رنگ و خون کی بنیاد پر بنائے گئے ان بتوں کو توڑ کر ملتِ واحدہ کا فرد بن جا، تیری شناخت تورانی، ایرانی یا افغانستانی قوم سے نہیں بلکہ اسلام کے ایک فرد کی حیثیت سے ہونی چاہئے۔ (إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ- الحجرات)
جس طرح پھولوں اور چمن کے پرندوں کی صحبت میں شاہین کی پرواز کی بلندیوں کو کم کر دیتا ہے، اسی طرح اے مردِ مومن! دنیا کی دوسری قومیں اور باطل نظریات تیرے عظیم مقصد کی راہ میں حائل ہیں۔ خدا نے تیرے بازوؤں میں اتنی قوت عطا کی ہے کہ تو اسلامی بنیادوں پر اپنا جہاں آپ پیدا کرسکتا ہے بشرطیکہ تُو غیروں سے مرعوب اور مغلوب نہ ہو۔
اس دنیا میں انسانوں نے جو اصول قوانین بنائے ہیں ان کی بنیاد محض گمان پر ہے، ان کا الٰہی ہدایت سے کوئی رشتہ نہیں ہے۔ اس گمان کی دنیا میں مسلمانوں کا نورِ ایمان گھٹا ٹوپ اندھیرے میں قندیلِ رہبانی کی مانند ہے۔ جس طرح کسی غیر آباد بیابان کے اندھیرے میں درویش کی کٹیا میں جلنے والا قندیل بھولے بھٹکے مسافروں کو راستہ دکھا سکتا ہے یا پناہ دے سکتا ہے، اسی طرح مسلمان جہالت و گمراہی میں ڈوبی ہوئی دنیا اور انسانیت کو راہِ راست دکھا سکتا ہے۔
اے مردِ مسلمان! تمہیں یاد ہونا چاہئے کہ تمہارے اسلاف نے اپنے زمانہ کی سپر پاور قیصر و کسریٰ کی ظالمانہ ملوکیت خاتمہ کیا، اور اس کے لئے انھوں نے اپنے اندر وہ صفات پیدا کر لی تھیں۔ ان مسلمانوں کے اندر حضرت علی رضی اللہ عنہ جیسی شجاعت اور قوت تھی کہ وہ نہ کسی خوفزدہ ہوئے اور نا ہی مرعوب ہوئے، ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ جیسا فقر و غنا تھا کہ دنیا اور اسکی نعمتوں میں مصروف نہیں ہو گئے، اور سلمان فارسی رضی اللہ عنہ جیسا صدقِ ایمان تھا۔ اگر تم اپنے زمانہ کے ظالمانہ نظام کو مٹا کر اسلامی انصاف و مساوات کو قائم کرنا چاہتے ہو تو تمہیں یہ صفات اپنے اندر پیدا کرنے ہونگی۔
یہ شعر افادیت کے لحاظ سے اس نظم کا حاصل ہے، یہی ایک شعر پوری نظم کے مقصد کو بیان کر دیتا ہے۔
اے مرد مسلمان! تیرے بزرگوں کی تاریخ اس امر کی غماز ہے کہ تیرے اسلاف نے کس شان و شوکت کے ساتھ اس دنیا پر حکومت کی۔ اور صدیوں سے غلامی کی زنجیروں میں جکڑی ہو قوموں کو آزادی اور حریت کا سورج دیکھنا نصیب ہوا، انھوں نے انسانیت کو ذات پات اور توہمات کی غلامی سے آزاد کرایا۔
یہ بات ذہن نشین کر لو کہ جب اس خاکی وجود یعنی بنی آدم کے اندر ایمان و یقین کی شمع روشن ہو جاتی ہے تو اس انسان کو بے سروسامانی میں جبریل علیہ السلام کی طرح قوتِ پرواز حاصل ہو جاتی ہے اور وہ بارگاہِ خداوندی میں مقرب ہو جاتا ہے۔