چاند
پہلا بند
اے چاند!حسن تیرافطرت کی آبرو ہے
طوفِ حریم خاکی تیری قدیم خو ہے
يہ داغ سا جو تیرے سینے میں ہے نمایاں
عاشق ہے تو کسی کا، یہ داغِ آرزو ہے؟
میں مضطرب زمیں پر، بے تاب تو فلک پر
تجھ کو بھی جستجو ہے ، مجھ کو بھی جستجو ہے
انساں ہے شمع جس کی ، محفل وہی ہے تیری ؟
میں جس طرف رواں ہوں ، منزل وہی ہے تیری ؟
معنی
طوفِ : طواف کرنا،گردش کر نا کسی کے چارو طرف گھومنا۔
حریم خاکی:دنیا۔
خو: عادت، ڈھنگ۔
شرح
اے چاند! فطرت نے تجھ سے زیادہ حسین کوئی شئے پیدا نہیں کی،دنیا کے گرد گھومنا تیری پرانی عادت ہے۔ اس کے بعد تخیل کی کار فرمائی شروع ہوتی ہے،شاعر کہتا ہے کہ تیرے سینے میں جو داغ سا نظر آتا ہے اس کو دیکھ کر میں یہ خیال کرتا ہوں کہ شاید میری طرح تو بھی کسی کا عاشق ہے، بالفاظ دیگر ہم دونوں عاشق ہیں اور ہمارا محبوب ایک ہی ہے اور دونوں کی منزلِ مقصود بھی ایک ہی ہے، دونوں خدا کے ہی طالب ہیں۔
دوسرا بند
تو ڈھونڈتا ہے جس کو تاروں کی خامشی میں
پوشیدہ ہے وہ شاید غوغائے زندگی میں
اِستادہ سرو میں ہے ، سبزے میں سو رہا ہے
بلبل میں نغمہ زن ہے ، خاموش ہے کلی میں
آ ! میں تجھے دکھاؤں رخسارِ روشن اس کا
نہروں کے آئنے میں ، شبنم کی آرسی میں
صحرا و دشت و در میں ، کہسار میں وہی ہے
انساں کے دل میں ، تیرے رخسار میں وہی ہے
معنی
غوغا:شورغل،ہنگامہ۔
اِستادہ: کھڑا ہوا۔
نغمہ زن: گانے والا۔
آرسی: آئینہ، انگوٹھے میں پہننے کا ایک زہور جس میں آئینہ لگا ہوتا ہے۔
شرح
اے چاند! تو خدا کو تاروں کی خاموشی میں تلاش کر رہا ہے لیکن وہ زندگی کے ہنگاموں میں پوشیدہ ہے ،سرو،سبزہ،بلبل،کلی،دریا،شبنم،صحرا،کوہسار ہر جگہ اسی کی قدرت کا جلوہ ہے اسی نے سرو کو باغ میں قامت عطا کی اور پانی کو روانی بخشی،ہر جگہ اور ہر شئے میں اسی کی صفات کاظہور ہو رہا ہے، میرے دل میں بھی وہی ہے اور تیرے حسین و جمیل چہرے میں بھی وہی ہے۔ ساری کائنات اس کی ہستی پر گواہی دے رہی ہے، اگر وہ نہ ہوتا تو کچھ بھی نہ ہوتا۔