میں اور تُو

اس نظم میں ‘میں’ سے شاعر اور ‘تو’ سے نظم پڑھنے والا یا مسلم امت مراد ہے، اس نظم میں علامہ اقبال نے اپنے اور مسلم امت کے افراد کے کردار کا ایک تقابلی جائزہ پیش کیا ہے۔

 نہ سلیقہ مجھ میں کلیِم کا نہ قرینہ تجھ میں خلیل کا
 میں ہلاکِ جادوئے سامری، تُو قتیلِ شیوۂ آزری

معنی

کلیم: موسیٰ علیہ السلام کا لقب۔
قرینہ: مناسبت، طریقہ۔
خلیل: ابراہیم علیہ السلام کا لقب۔
سامری:موسیٰ علیہ السلام کے دور کا جادوگر جس نے بنی اسرائیل کو بت پرستی مبتلا کر دیا تھا۔
قتیل: مقتول، قتل کیا ہوا۔
شیوۂ آزری: بت پرستی۔

تشریح

کہتے ہیں کہ نہ تو میرے دل میں حضرت موسیٰ کلیم اللہ جیسا ایمان اور یقین موجود ہے اور نہ تُو حضرت ابراہیم خلیل اللہ کی سنت اور طریقہ پر عمل پیرا ہے۔ ان کمزوریوں کی وجہ سے اگر میں وقت کے سامری کے فریب اور جادو میں مبتلا ہو گیا ہوں، تو تُم اس زمانہ کے بت فروش آزر کی پیروی کر رہے ہو۔ یعنی پوری ملتِ اسلامیہ پر ہی باطل نظریات و خیالات کا دور دورہ ہے۔


 میں نوائے سوختہ در گُلو، تو پریدہ رنگ، رمیدہ بُو
 میں حکایتِ غمِ آرزو، تُو حدیثِ ماتمِ دلبری

معنی

نوائے سوختہ در گُلو: وہ آواز جو کراہ کے ساتھ نکلے۔
پریدہ رنگ: بے رنگ، مصیبت زدہ۔
رمیدہ: الگ، جدا۔
حدیث: داستان۔

تشریح

میری حالت اس بلبل کی مانند ہو چکی جس کی مترنم آواز اس کے گلے میں گھٹ کر رہ گئی ہے اور وہ اپنا حال بھی بیان کرنے سے قاصر ہے، اور تُو اپنی پستی کی وجہ اس پھول کی مانند ہو چکا ہے جس میں نہ تو خوشبو باقی ہے اور نہ ہی خوشنما رنگت۔ میرے پاس محض آرزوؤں کے غم کی داستان ہے اور تُو اپنی بدنصیبی و محرومی کا ماتم کرتا رہتا ہے۔ یعنی ہم دونوں ہی امت کے زوال پر غمزدہ ہیں۔


 مرا عیش غم، مرا شہد سم، مری بود ہم نفَسِ عدم
 ترا دل حرم، گِرَوِ عجم، ترا دیں خریدۂ کافری

معنی

سم: زہر۔ بود: وجود۔
گِرَوِ عجم: عجمی یا غیر اسلامی خیالات میں گرفتار۔

تشریح

امت کی اس زبوں حالی میں میری حالت یہ ہے کہ مجھے عیش و طرب میں سکون کے بجائے رنج محسوس ہوتا ہے، لوگوں کے لئے جو شہد ہے وہ میرے لئے زہر ہے، ایسی حالت میں میرا وجود و عدم وجود اور میری زندگی و موت دونوں برابر ہیں۔ جبکہ تیرا دل جو حرم تھا، ایمان اس میں جاگزیں تھا اب باطل تصورات کے ہاتھوں گرفتار ہو چکا ہے اور تونے اپنا دین کافروں کو بیچ ڈالا ہے۔


 دمِ زندگی رمِ زندگی، غمِ زندگی سمِ زندگی
 غمِ رم نہ کر، سمِ غم نہ کھا کہ یہی ہے شانِ قلندری

تشریح

ہر دم زندگی رواں دواں ہے، ہر آنے والا سانس زندگی کو کم کر رہا ہے اور اسے آخری منزل موت کی طرف لے جا رہا ہے، زندگی کا یہی غم اس کے لئے زہر ثابت ہو رہا ہے اور انسان کی مایوسی کا سبب بن رہا ہے۔ لیکن زندگی کے گزرنے پر تُو غم نہ کر بلکہ ہر حال میں راضی بہ رضائے رب رہ، کیونکہ ایک مومن کی یہی شان ہوتی ہے کہ وہ خدا کی مشیت سے راضی اور مستقبل سے پرامید رہتا ہے۔


تری خاک میں ہے اگر شرر تو خیالِ فقر و غنا نہ کر
 کہ جہاں میں نانِ شعیر پر ہے مدارِ قوّتِ حیدری

معنی

شرر: چنگاری۔
نانِ شعیر: جو کی روٹی۔

تشریح

اے مردِ مومن! اگر تیرے دل میں عشقِ حقیقی کی چنگاری موجود ہے تو تجھے دنیا کے مال و دولت اور وسائل کی فکر نہیں کرنی چاہئے کیونکہ مومن کی طاقت مال و دولت سے نہیں بلکہ عشقِ خدا کی بدولت ہوتی ہے۔ جس طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ جَو کی روٹی کھاتے تھے لیکن ایمان کی طاقت سے وہ وقت کے بڑے سے بڑے بہادر کو بھی زیر کر دیتے تھے۔ یعنی باطل سے جنگ کے لئے دنیاوی اسباب کی نہیں بلکہ ایمان کی ضرورت ہوتی ہے۔


 کوئی ایسی طرزِ طواف تُو مجھے اے چراغِ حرم بتا
 کہ ترے پتنگ کو پھر عطا ہو وہی سرشتِ سمندری

معنی

سرشت: فطرت۔

تشریح

اے میرے رہنما! مجھے کوئی ایسا طریقہ اور طرز بتا کہ جس کو اپنا کر ہم میں پھر سے اسلاف جیسا ایمان و یقین پیدا ہو جائے اور ہمیں بھی وہی شان و شوکت عطا ہو جو انکو حاصل ہوئی تھی۔


 گِلۂ جفائے وفا نما کہ حرم کو اہلِ حرم سے ہے
 کسی بُت کدے میں بیاں کروں تو کہے صنم بھی ’ہَری ہَری

تشریح

اے مسلمان! تم نے حرم یعنی اسلام کے ساتھ بیوفائی اور دوہرے پن کا مظاہرہ کیا ہے جو بظاہر وفا معلوم ہوتی ہے، زبان سے تو اسلام کا اقرار کرتے ہو لیکن عمل تمہارا کچھ اور ہے، اگر تمہاری اس جفا کا تذکرہ میں بتوں سے کروں تو وہ بت بھی خدا خدا کرنے لگیں گے۔ یعنی بت جو خدا کی ضد ہے وہ بھی خدا کو یاد کرنے لگیں گے۔


نہ ستیزہ گاہِ جہاں نئی نہ حریفِ پنجہ فگن نئے
 وہی فطرتِ اسَداللّہی، وہی مرحبی، وہی عنتری 

معنی

ستیزہ گاہ: جنگ کا میدان۔
پنجہ فگن: پنجہ لڑانے والے۔
اسَداللّہی: اسداللہ سے منسوب، مراد حضرت علی رضی اللہ عنہ۔
مرحبی: مرحب عرب کا ایک مشہور جنگجو تھا جسے حضرتِ علی رضی اللہ عنہ نے قتل کیا تھا، مراد کفر کا عَلم بردار۔
عنتری: عنتر عرب کا ایک مشہور بہادر تھا اس کو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے قتل کیا تھا، اسلام دشمن۔

تشریح

دنیا میں بہت سے تغیرات و انقلابات آئے، نئی تہذیبیں آئیں اور کچھ چلی بھی گئیں، پھر بھی صورت حال اب بھی وہی ہے، آج بھی حق و باطل نبرد آزما ہیں جیسے پہلے تھے۔ جس طرح دورِ نبوی میں باطل کی صفوں میں مرحب اور عنتر کھڑے تھے اور حق کی صف میں ان کے مد مقابل حضرت علی رضی اللہ عنہ تھے اسی طرح آج بھی باطل طاقتوں اور نظریات کے خلاف اسَداللّہی صفت والے مومن کھڑے ہیں، یہ معرکۂ حق و باطل تاقیامت یونہی جاری رہے گا۔


کرم اے شہِؐ عَرب و عجم کہ کھڑے ہیں منتظرِ کرم
 وہ گدا کہ تُو نے عطا کِیا ہے جنھیں دماغِ سکندری

تشریح

آخری شعر میں علامہ اقبال رسالت مآب صل اللہ علیہ وسلم سے رجوع کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اے شہنشاہِ عرب و عجم! آپکے امتی آپکے در پر دستہ بستہ کرم کے منتظر کھڑے ہیں جو آپکے سامنے تو فقیر ہیں لیکن آپ ﷺ کے غلام ہونے کی وجہ سے انکی یہ شان ہے کہ وہ سلاطین کو بھی خاطر میں نہیں لاتے۔