Skip to content

March 1907 مارچ

مارچ ١٩٠٧


یہ نظم علامہ کی ان نظموں سے ہے جن میں انھوں نے مستقبل کی پیشن گوئی کی ہے، یہ نظم انھوں نے 1907 میں جب وہ یورپ میں قیام پذیر تھے، لکھی تھی۔ یورپ میں رہتے ہوئے انھوں نے حالات کو دیکھ کر اچھی طرح سمجھ لیا تھا کہ مشرق و مغرب میں ایک بہت بڑے انقلاب  کی آمد آمد ہے اور انھیں خیالات کو  نظم کے پیرائے میں بیان کیا ہے۔

پہلا بند

زمانہ آیا ہے بے حجابی کا عام دیدار یار ہوگا
سکوت تھا پردہ دار جس کا وہ راز اب آشکار ہوگا
شرح
چونکہ یورپ کا سرمایادارانہ اور مادہ پرستانہ نظام حیات باطل ہو چکا ہے اس لئے اب دینِ اسلام کی تبلیغ و اشاعت اور کامیابی کا زمانہ آگیا ہے۔ لہذا اسلام کے پاکیزہ اصولوں کی اشاعت ہر مسلمان پر فرض ہے تا کہ ساری دنیا اس کے نور سے منوّر ہو سکے اسلام کے حقائق اب تک پردوں میں پوشیدہ تھے اور مسلمان تبلیغ سے غافل تھے لیکن اب وقت آگیا ہے کہ ان حقائق کو منظر عام پر لایا جائے۔


دوسرا بند

گزر گیا اب وہ دور ساقی کہ چھپ کے پیتے تھے پینے والے
بنے گا سارا جہان مے خانہ ہر کوئی بادہ خوار ہوگا
شرح
وہ دور گزر گیا جب انگریزوں کے خوف سے مسلمان علماء گھروں میں چھپ کر اسلام کے حقائق بیان کیا کرتے تھے  اب انشاء اللہ مسلمان اعلانیہ اسلام کی حقّانیت یورپ کے شہروں میں تقریر اور تحریر کے ذریعہ سے بیان کریں گے اور ساری دنیا کو اسلام کے اصولوں سے روشناس کر دیں گے۔


تیسرا بند

کبھی جو آوارۂ جنوں تھے وہ بستیوں میں پھر آ بسیں گے
برہنہ پائی وہی رہے گی مگر نیا خارزار ہوگا
شرح
جو لوگ اسلام کی تڑپ رکھتے تھے لیکن قوم اور ماحول اور حالات سے مایوس ہو کر گوشئہ گمنامی میں چلے گئے تھے۔انشاءاللہ اب وہ دوبارہ میدانِ عمل میں آجائیں گے ان کی جدوجہد (برہنہ پائی) کا عالم تو وہی رہے گا لیکن محاذ جنگ بدل جائےگا یعنی جہاد کا طریقہ (خارزار) بدل جائے گا مسلمان تلوار کے بجائے قلم سے اور زبان سے کام لیں گے۔


چوتھا بند

سنا دیا گوش منتظر کو حجاز کی خامشی نے آخر
جو عہد صحرائیوں سے باندھا گیا تھا پھر استوار ہوگا
شرح
مجھے آثار ایسے نظر آرہے ہیں کی رحمت الٰہی کا پھر نزول ہوگا اور آج سے تیرہ سو سال پہلے اللہ نے جو کرم عربوں (صحرائیوں) پر کیا تھا وہی کرم دوبارہ اب ملّتِ اسلامیہ پر نازل ہوگا۔


پانچواں بند

نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا
سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہوگا
شرح
میں نے فرشتوں سے یہ سنا ہے جس کا مطلب ہے کہ مجھے یقین ہے کہ جس مسلمان قوم نے کسی زمانہ میں قیصر(روم) اور کسریٰ(ایران) کے تخت الٹ دئے تھے وہ قوم اب پھر بیدار ہونے والی ہے۔


چھٹا بند

کیا مرا تذکرہ جو ساقی نے بادہ خواروں کی انجمن میں
تو پیر مے خانہ سن کے کہنے لگا کہ منہ پھٹ ہے خوار ہوگا
شرح
جب قوم کے لیڈروں نے قومی کارکنوں کےجلسوں میں میرا تذکرہ کیا کہ اقبال بھی خدمت قوم کے لئے آمادہ ہے تو بزرگان ملّت (جن کو دنیا کا خوب تجربہ ہو چکا ہے) یہ بات سن کہنے لگے کہ اقبال چونکہ شمشیر برہنہ ہے۔سچ بولتا ہے اور ہر شخص کو کھری کھری سناتا ہے اس لئے عوام اور خواص دونوں کی نظروں میں ذلیل رہے گا اپنے بھی خفا رہیں گے اور بے گانے بھی ناخوش رہیں گے یعنی قوم بھی ناراض رہے گی اور حکومت بھی ناراض رہے گی


ساتواں بند

دیار مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زر کم عیار ہوگا
شرح
اے اہلِ مغرب! یہ دنیا بہرحال دنیا ہے اور اس میں اللہ کی مخلوق آباد ہے یہ کوئی دکان یا تجارتی ادارہ نہیں ہے جس پر تمہارا قبضہ ہو سکے یا جس پر تمہارا حکم نافذ ہو سکے۔آگاہ ہو جاؤ کہ جس تہذیب کو دنیا والوں کے حق میں مفید قرار دے رہے ہو وہ عنقریب ان کے لئے وبالِ جان بن جائے گی ،زرِ کم عیار بمعنی کھوٹا سونا۔


آٹھواں بند

تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا
شرح
اور مجھے یہ تو نظر آرہا ہے کہ تمہاری یہ تہذیب جس پر تمہیں اس قدر ناز ہے عنقریب تباہ ہو جائےگی اور اس کے ساتھ تم بھی فنا ہو جاؤگے یہ بات صاف ہے جو طائر اپنا آشیانہ کسی کمزور شاخ پر بناتا ہے وہ شاخ یقیناً اس کے بوجھ سے ٹوٹ جائےگی اور شاخ کے ساتھ آشیانہ بھی برباد ہو جائے گا۔


نواں بند

سفینۂ برگ گل بنا لے گا قافلہ مور ناتواں کا
ہزار موجوں کی ہو کشاکش مگر یہ دریا سے پار ہوگا
شرح
مُورِناتواں (کمزور چیونٹی)سے مسلمان قوم مراد ہے موجوں سے مصائب اور مشکلات مراد ہیں۔انشاءاللہ مسلمان قوم اگرچہ کمزور ہے لیکن وہ گلاب کی پتی کی کشتی بنائےگی اور اگرچہ اس کی راہ میں صدہا مشکلات آئیں گی لیکن وہ ان سب پر غالب آجائے گی، سفینۂ برگ گُل سے بہت ادنیٰ درجہ کی زندگی اور ساز و سامانِ ظاہری کی کمی مراد ہے۔


دسواں بند

چمن میں لالہ دکھاتا پھرتا ہے داغ اپنا کلی کلی کو
یہ جانتا ہے کہ اس دکھاوے سے دل جلوں میں شمار ہوگا
شرح
آج کل کیفیت یہ ہے کہ قوم کے واعظین  ہر مجلس میں اپنا وقار قائم کرنے کے لئے لوگوں کو اپنی ملّت دوستی اور قوم پروری کے جذبات کی داستانیں سناتے رہتے ہیں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح محض زبانی جمع خرچ سے قومی خادموں میں شمار ہو جائے گا۔


گیارہواں بند

جو ایک تھا اے نگاہ تو نے ہزار کر کے ہمیں دکھایا
یہی اگر کیفیت ہے تیری تو پھر کسے اعتبار ہوگا
شرح
دین اسلام ایک تھا اور ایک ہی ہے لیکن افسوس کی مسلمانوں نے اس کی مختلف تعبیرات کر کے اپنے آپ کو صدہا فرقوں میں منقسم کر لیا۔نتیجہ یہ نکلا کہ آج دنیا میں اتنی بڑی قوم کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔وجہ یہ ہےکہ شہروں کے نام پر ایک فرقہ بریلی بن گیا تو دوسرا دیوبندی ،یہ فرقہ بندی قوم کے حق میں سب سے بڑی لعنت ہے جس سے اس دین اسلام کا وقار ختم ہو جاتا ہے۔


بارہواں بند

کہا جو قمری سے میں نے اک دن یہاں کے آزاد پا بہ گل ہیں
تو غنچے کہنے لگے ہمارے چمن کا یہ رازدار ہوگا
شرح
میں نے ایک دن قوم  کے ایک ہمدرد (قمری)  سے یہ کہا کہ ہماری قوم میں جو لوگ اپنے آپ کو آزاد کہتے ہیں دراصل وہ بھی حکومت کے غلام ہیں تو میری قوم کے نوجوان یہ سن کر بول اٹھے کہ ہو نہ ہو یہ اقبال تو حکومت کے سارے رازوں سے واقف معلوم ہوتا ہے اس نے یہ کیسی پتہ کی کی بات کہی ہے۔


تیرہواں بند

خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہوگا
شرح
اس شعر میں اقبال نے بہت بڑا نکتہ بیان کیا ہے مطلب یہ ہے کہ بہت سارے لوگ خدا سے عشق کے نام پر جنگلوں اور خانقاہوں میں جا بیٹھتے ہیں لیکن خدا کا اصلی عاشق وہ شخص ہے جو خدا کے بندوں کے ساتھ ہمدردی کرے اور انہیں راہِ راست پر لائے۔


چودہواں بند

یہ رسم بزم فنا ہے اے دل گناہ ہے جنبش نظر بھی
رہے گی کیا آبرو ہماری جو تو یہاں بے قرار ہوگا
شرح
مطلب یہ ہے کہ جو لوگ خڈمتِ قوم کے آرزومند ہوں ان کو اس حقیقت کو ہمیشہ مدنظر رکھنا چاہیے کہ خدمتِ قوم پھولوں کی سیج نہیں ہے اس راہ میں بہت دشواریاں لاحق ہوتی ہیں اور خادمِ قوم کو لازم ہے کہ وہ زبان سے اف تک نہ کرے (جنبش نظر بھی گناہ ہے)، جو لوگ ضعفِ ایمانی کی بنا پر حرف شکایت زبان پر لاتے ہیں قوم میں ان کی کوئی عزت باقی نہیں رہتی(رہے گی کیا آبرو ہماری)۔


پندرہواں بند

میں ظلمت شب میں لے کے نکلوں گا اپنے در ماندہ کارواں کو
شرر فشاں ہوگی آہ میری، نفس مرا شعلہ بار ہوگا
شرح
اگرچہ حالات میرے مخالف ہیں اور مشکلات میری راہ میں حائل ہیں (ظلمتِ شب)لیکن میں ضرور اپنی قوم کو بیدار کروں گا اور ترقی کی راہ  پر چلاؤں گا اور میں اس مقصد کے لئے اپنی قوم کے اندر عشقِ رسول کی آگ بھڑکاؤں گا اور جوش دلانے والی نظموں سے ان کی رگوں میں خون دوڑاؤں گا میری آہ انگارےبرسائےگی اور میری سانس سے شعلے نکلیں گے۔


سولہواں بند

نہیں ہے غیر از نمود کچھ بھی جو مدعا تیری زندگی کا
تو اک نفس میں جہاں سے مٹنا تجھے مثال شرار ہوگا
شرح
اے مسلمان! اگر تونے اپنی زندگی کا مقصد صرف یہ قرار دیا ہے کہ کچھ عرصہ دنیا میں زندہ رہے اور پھر مر جائے تو یقین رکھ کہ تو ہمیشہ کے لئے مٹ جائےگا،  جو شئے انسان کو حیات ابدی عطا کر سکتی ہے وہ عشقِ رسولؐ ہے محض نمو یعنی حیاتِ چند روزہ یہ تو حیوانات کی زندگی کا مقصد ہے۔ انسان تو اشرف المخلوقات ہے اور پھر مسلمان تو خلیفۃ اللہ ہے۔


اٹھارواں بند

نہ پوچھ اقبالؔ کا ٹھکانا ابھی وہی کیفیت ہے اس کی
کہیں سر راہ گزار بیٹھا ستم کش انتظار ہوگا
شرح
اقبال کہتے ہیں کہ تم اقبال  کے حالات کے بارے میں کیا پوچھتے ہو ،وہ تو آج بھی اپنے محبوب کے دیدار اور نظرِ کرم کے انتظار میں   ملے گا۔یعنی اقبال آج بھی عشقِ حقیقی میں سرشار ملے گا جس طرح پہلے رہا کرتا تھا۔

Share with Others

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *