Skip to content

No GOD but ALLAH/لا الہٰ الا اللہ

لا الہٰ الا اللہ

پہلا بند

خودی کا سرِ نہاں لا الہٰ الا اللہ
خودی ہے تیغ، فساں لا الہٰ الا اللہ
معنی
لاَالٰہَ: نہیں ہے کوئی قابلِ عبادت۔
اِلاّاللہ:لیکن اللہ کے سوا۔
تیغ:  تلوار
سرِّ نہاں: پوشہدہ راز۔
فساَں: سان، تلوار وغیرہ کو تیز کرنے کا پتھر۔
شرح
خودی کا راز توحید میں چھپا ہے اور اگر خودی تلوار ہے تو عقیدۂ توحید اس تلوار کی سان کی حیثیت رکھتا ہے اور توحید ہی نا ہو تو یہ تلوار ایک لوہے کے ٹکڑے سے زیادہ  کسی اہمیت کی حامل نہیں ہوتی  یعنی اگر انسان کی خودی  اس حقیقت سے آشنا ہو جائے  کہ عبادت کے لائق صرف اللہ کی ذات ہی ہے اور کوئی معبود نہیں ہے تو پھر انسانی وقار کا یہی راز ہے اور اسی تیز دھار سے یقینِ محکم تمام شرکتوں  اور باطل نظریات  کا سر قلم کئے چلا جاتا ہے۔


دوسرا بند

یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں، لا الہٰ الا اللہ
معنی
صنم کدہ: بتوں کا گھر۔ جہاں: دنیا۔
شرح
دنیا بتوں کا گھر بن چکی ہے چنانچہ خدا سے روشناس کرانے کے لئے کوئی ابراہیمؑ بھی چاہیے ۔چونکہ زمانہ اپنے  خود کے تراشے ہوئے بتوں کو آزما آزما کر تھک چکا ہے۔اس لئے یہ دور خود ہی اپنے ابراہیم کی تلاش میں ہے۔گویا زمانے کی عقلی کوششیں اپنے اصنام کے حق میں خود ہی ضربت کار بن  جائیں گی۔


تیسرا بند

کیا ہے تو نے متاعِ غرور کا سودا
فریب سود و زیاں، لا الہٰ الا اللہ
معنی
​ متاعِ غرور:دھوکے کا سامان۔
سُود:نفع،منافع۔
زیاں:نقصان،گھاٹا،خسارہ۔
شرح
علامہ اقبال دنیا سے خطاب فرماتے ہیں کی تونے  بے ثبات دنیا کے  سمانوں  کا بیوپار کر رکھا ہے جو ایک دھوکہ محض ہے (متاع غرور:   قران کی آیت کا ایک ٹکڑا) جس کا نفع و نقصان  بھی ایک دھوکے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ان سب دھوکوں سے پرے اگر کسی کو ثبات ہے تو وہ اﷲ کی ذات ہے اور اصل نفع و فلاح عقیدۂ توحید اور اسکی سر بلندی میں ہے۔


چوتھا بند

یہ مال و دولت دنیا، یہ رشتہ و پیوند
بتانِ وہم و گماں، لا الہٰ الا اللہ
شرح
دنیا کے مال و دولت اور دنیا کے تمام تعلقات  و قرابتیں  صرف وہم و گمان کے بُت اور آزمائش ہیں اور بارہا ہم ان کو سنبھالنے اور سمیٹنے  کی فراق  میں اپنی عاقبت  بگاڑ بیٹھتے ہیں جبکہ ہونا یہ چاہئے کہ ہم ہر معاملے میں احکامِ خداوندی کی پیروی کریں اور توحید پہ  کار بند ہوں۔  


پانچواں بند

خرد ہوئی ہے زمان و مکاں کی زُناری
نہ ہے زماں نہ مکاں، لا الہٰ الا اللہ
معنی
زُنّاری:جنیو پہننے والا(ہندو)
زماں: وقت۔مکاں:  جگہ، خلاء۔
شرح
جنیو ایک کچا دھاگا ہوتا ہے جسے پہن کر ہندو سمجھتا ہے کہ میں پکّے مذہب کا پیروکار ہوں حلانکہ کچے پن کا رشتہ پختگی سے ہو ہی نہیں سکتا،علامہ نے اسی انداذ پہ بتایا ہے کہ اس نے وقت اور مقام کا جنیو پہن لیا ہے اور انسان اپنی عقل سے سمجھتا ہے کہ وہ وقت کے تابع ہے اور مکان میں مقید ہے حلانکہ نہ وقت مستقل شے ہے نہ کسی مکان کو پائیداری حاصل ہے سوائے خدا کی ذات کے۔اگر انسان عقل سے الگ ہو کر دل کے ایمان سے خدا کی پائداری اور وحدانیت پر یقین کر لے تو وہ اِن غلط اور جھوٹی قیود سے قطعی آزاد نظر آئےگا۔


چھٹاں بند

یہ نغمہ فصلِ گل و لالہ کا نہیں پابند
بہار ہو کہ خزاں، لا الہٰ الا اللہ
شرح
یہ عقیدہ خدائے واحد لا شریک ہے اور وہی عبادت کے لائق ہے کسی زمانے،کسی موسم،کسی عمر اور کسی فرقے کامحتاج و مقید نہیں ہے بلکہ ہر زمانہ میں یہ حقیقت حقیقت ہی رہے گی۔


ساتواں بند

اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حکم اذاں، لا الہٰ الا اللہ​ 
شرح
علامہ کہہ رہے ہیں کہ آج مسلمان بہت سارے باطل نظاموں کے نرغے میں ہیں اور ان کے اثرات  کی وجہ سے وہ  باطل نظریات اسلامی معاشرے اور جماعت میں آ گئے ہیں ، لیکن اس ظلمات  و  خدانا شناسی کے  ماحول میں مجھے تو خود بھی صراطِ مستقیم پر رہنے کا حکم ہے اور یہ بھی کہ میں اللہ کے  احکام کی تبلیغ و تلقین  کرتا رہوں۔


Share with Others

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *