My Epiphany of passion causes../میری نوا شوق سے شور حریم ذات میں

میری نوا شوق سے شور حریم ذات میں

پہلا شعر
میری نوائے شوق سے شور حریمِ ذات میں
غلغلہ ہائے الاماں بت کدۂ صفات میں

 
معنی و شرح
نوائے بمعنی نالہ و فریاد یا آہ و زاری۔ یہ اقبال کے محبوب ترین الفاظوں میں سے ایک ہے کیونکہ وہ اس سے اظہارِ عشق کرتے ہیں جس طرح اذان علامت صلٰوۃ ہے۔ نالہ و فریاد عشق کی علامت ہے۔
عاشق جب اپنے معشوق کو یاد کرتا ہے تو اسے اس کے فراق کا احساس ہوتا ہے اور یہ آہ و فریاد کی شکل میں ہوتا ہے۔ ذات کے لئے حریم کا لفظ استعمال کیا ہے۔حریم سے شاعری میں وہ محفوظ مقام مراد ہے جہاں کسی کی رسائی نہ ہو سکے۔
 
پہلے مصرعہ میں انسان خدا کے عشق میں گرفتار ہے اور اس کے فراق میں  نوائے شوق پر مجبور ہے۔ انسان کا خدا سے عشق کرنا ہی دلیل ہے اس بات کی کہ انسان کی اصل خاکی نہیں ہے۔ اقبال نے اسی حقیقت کو یوں بیان کیا ہے،
تیرا جوہر ہے نوری پاک ہے تو
فروغِ دیدۂ افلاک ہے تو

نوائے شوق دلیل ہے اس بات کی کہ عاشق کو یہ صحبتِ آب و گل پسند نہیں آتی اس لئے وہ محبوب حقیقی کی ملاقات کا آرزومند ہے اور یہ بالکل فطری امر ہے۔ مولانا رومی نے کچھ یوں بیان کیا ہے
ہر کسے کہ دور ماند از اصل خویش
باز جو ید روزگارِ وصل خو یش

یعنی ہر شخص جو اپنی اصل سے دور ہو جاتا ہے۔ وہ اپنی اصل سے ملاقات کا آرزومند رہتا ہے بلکہ ملاقات کے لئے کوشاں رہتا ہے۔


دوسرا شعر
حور و فرشتہ ہیں اسیر میرے تخیلات میں
میری نگاہ سے خلل تیری تجلیات میں
 
معنی و شرح
تخییلات کے معنی خیال میں آنا۔ اقبال نے اس کو اسی معنی میں استعمال کیا ہے۔ حور اور فرشتہ کو ہم حواسِ ظاہری سے محسوس نہیں کر سکتے۔
جو شخص جمالِ ذات پر عاشق ہوتا ہے حور و فرشتہ اس کی نگاہ میں نہیں جچتے بلکہ اس کی نگاہ اس قدر تیز ہو جاتی ہے کی تجلّیات الٰہیہ میں خلل واقع ہو جاتا ہے۔


تیسرا شعر
گرچہ ہے میری جستجو دیر و حرم کی نقش بند
میری فغاں سے رُستخیز کعبہ و سومنات میں

 
معنی و شرح
فغاں: شور و غل، نالۂ و فریاد۔
رُستخیر: قیامت، ہنگامہ۔
نقش بند: مصور، نقاش۔

عشق انسان کو اس قدر بلند کر دیتا ہے کہ وہ کعبہ و سومنات دونوں میں اسی کا جلوہ دیکھتا ہے اور اس لئے دونوں جگہ ہنگامہ برپا کر سکتا ہے۔


چوتھا شعر
گاہ مری نگاہِ تیز چیر گئی دلِ وجود
گاہ الجھ کے رہ گئی میرے توہمات میں
 
معنی و شرح
گاہ: جگہ، کبھی۔
توہمات: گمان، وہم۔
جب انسان پر الوہیت کا غلبہ ہوتا ہے تو اپنے وجدان کی بدولت ساری کائنات کو ایک آن میں دیکھ لیتا ہے اور جب مادیت کا غلبہ ہوتا ہے تو عقل سے کام لیتا  ہے اور عقل کا کام ہی سلوک پیدا کرنا ہے، اس کی عقل خود ہی باری تعالیٰ پر دلیل قائم کرتی ہے اور خود ہی اس کو توڑ دیتی ہے، نیز یہ کہ جستجو یعنی عقل امتیازات پیدا کرتی ہے لیکن فغان یعنی عشق ان امتیازات کو مٹا دیتی ہے۔ نیز عقل سے دیر و حرم کی مصوری ہو سکتی ہے، ہنگامہ پیدا نہیں ہو سکتا۔  اسی پر اکبر الہٗ آبادی نے کہا ہے۔
فلسفی کو بحث کے اندر خدا ملتا نہیں
ڈور کو سلجھا رہا ہے سرا ملتا نہیں۔


پانچواں شعر
تو نے یہ کیا غضب کیا مجھ کو بھی فاش کر دیا
میں ہی تو ایک راز تھا سینۂ کائنات میں
 
معنی و شرح
انسان خدا کا راز ہے اور خدا نے انسان کو فاش کر کے اپنا راز ظاہر کر دیا۔
کچھ مختلف انداز میں علامہ نے
ارمغانِ حجاز میں کچھ یوں کہا ہے
اگر خواہی خدا را فاش بینی
خودی را فاش تر دیدن بیاموز
یعنی اگر خدا کو دیکھنا چاہتے ہو تو خودی کو دیکھنا سیکھو۔