وطنّیت
پہلا بند
اس دور میں مے اور ہے جام اور ہے جم اور
ساقی نے بنا کی روشِ لطف و ستم اور
مسلم نے بھی تعمیر کیا اپنا حرم اور
تہذیب کے آزر نے ترشوائے صنم اور
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے
معنی
جام: گلاس، شراب پینے کا برتن۔
ساقی: شراب پلانے والا۔
آزر : ابراہیم علیہ السلام کا باپ یا چچا جو بت بناتا تھا۔
پیرہن: لباس، پوشاک۔
تشریح
علامہ اقبال کہہ رہے ہیں کہ مے خانہ (دنیا) کے اصول و معنی تیزی سے بدل رہے ہیں، اب شراب، جام اور جم کے مفاہیم کچھ اور طے پا رہے ہیں لیکن ساقی کا التفات و ظلم اب بھی برقرار ہے یعنی ملوکیت کی طرح اس نظام کی بنیاد بھی ظلم و ستم ہے۔ اس نظامِ باطل سے مرعوب ہو کر مسلمانوں نے بھی وطنیت کی بنیاد پر ایک نیا نظام ترتیب دینا شروع کر دیا ہے، اور رنگ و نسل، ذات پات، عصبیت، علاقائیت و زبان کی بنیاد پر مسلم ممالک کے ٹکڑے ہو رہے ہیں اور مسلم ملکوں میں آپس میں جنگ شروع ہو رہی ہے، اس تصور کے اصول و مبادی انھوں نے اسلام کے بجائے مغرب سے مستعار لئے ہیں، اور اسکے نتائجِ بد سے دوچار ہو رہے ہیں۔ حرم جو مسلمانوں کے اتحاد و اتفاق کا مظہر ہوا کرتا تھا، اب مسلمان مختلف عصبیتوں کی بنیاد پر الگ الگ گروہوں میں متحد ہو رہے ہیں، گویا انھوں نے نئے حرم تعمیر کر لئے ہے۔ لیکن یہ عصبیتیں اسلامی اتحاد و اتفاق کے منافی ہیں اور انکی حیثیت بت کے مانند ہے، پہلے بت تراش آزر تھا اور اب تہذیبِ مغرب۔ مغربی تہذیب نے بہت سے باطل نظریات و افکار کو پروان چڑھایا ہے لیکن نظریۂ وطنیت ان سب سے بڑھ کر اسلام دشمنی پر مبنی ہے، کیونکہ اجتماعیت اور محبت و نفرت کی بنیاد جذبۂ وطنیت ہوتی ہے نا کہ اسلام، گویا اسکی بنیاد مذہب کی قبر اور اسکا پیرہن مذہب کے لئے کفن کے مانند ہے۔
دوسرا بند
یہ بت کہ تراشیدۂ تہذیبِ نوی ہے
غارت گرِ کاشانۂ دینِ نبویؐ ہے
بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام ترا دیس ہے تو مصطفوی ہے
نظّارۂ دیرینہ زمانے کو دکھا دے
اے مصطفوی خاک میں اس بت کو ملادے
معنی
تراشیدہ: تراشا ہوا، گھڑا ہوا۔
تہذیبِ نوی: نئی تہذیب۔
غارت گر: برباد کرنے والا۔
کاشانہ: گھر۔
نظارۂ دیرینہ: پرانا نظارہ۔
تشریح
یہ تہذیبِ مغرب کا تراشا ہوا بت (وطنیت) اپنی اصل اور بنیاد کے اعتبار سے اور اپنے دور رس نتائج کی روشنی میں رسول اللہﷺ کے لائے ہوئے دین کے لئے سُمِ قاتل کی حیثیت رکھتا ہے۔ لیکن حضرت محمد مصطفیٰ ﷺکے پیروکاروں کے لئے اسلام ہی وطن ہے یعنی ایک مومن کے سیاسی، اجتماعی و انفرادی زندگی کا ہر گوشہ اسلامی اصولوں سےعبارت ہونا چاہئے۔ اسلام ہی ایک مومن کے لئے حکمت و بصیرت اور جسارت و طاقت کا سرچشمہ ہے، یہی وہ طاقت جس کے ذریعہ اس نظامِ باطل کا خاتمہ ممکن ہے۔ ہمارے اسلاف نے بہت سے باطل و استعماری قوتوں کو اپنی حکمت و جسارت کے ذریعہ شکست دی ہے، دنیا پھر اسی نظارۂ دیرینہ کی منتظر ہے۔
تیسرا بند
ہو قیدِ مقامی تو نتیجہ ہے تباہی
رہِ بحر میں آزادِ وطن صورتِ ماہی
ہے ترکِ وطن سُنّتِ محبوبِ الٰہی
دے تو بھی نبوّت کی صداقت پہ گواہی
گفتارِ سیاست میں وطن اور ہی کچھ ہے
ارشادِ نبوّت میں وطن اور ہی کچھ ہے
معنی
ماہی: مچھلی۔
بحر: سمندر۔
محبوبِ الٰہی : محمد صل اللہ علیہ وسلم
تشریح
اگر مسلمان اسلام کے عالمی و آفاقی تصورِ اجتماعیت کے بجائے عصبیتوں کی بنیاد پر الگ الگ اجتماعیتوں میں بکھر جائیں گے تو انکی ہوا اکھڑ جائے گی اور اس کا نتیجہ تباہی کے علاوہ کچھ نہیں ہوگا۔ ایک مسلم کو دنیا میں مچھلی کی مانند ہونا چاہئے جس کے لئے پورا سمندر وطن ہوتا ہے، جہاں سازگار ماحول ملتا ہے وہاں رک جاتی ہے اور جب چاہے ہجرت کر جاتی ہے۔ ایک مسلم کو بھی ایسا ہی ہونا چاہئے کہ جب بھی اسلام کا تقاضہ ہو وہ بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اس ملک سے ہجرت کر جائے۔ یہی اللہ کے رسول ﷺ کی سنت ہے کہ جب ایک ملک میں اسلام کے لئے حالات سازگار نہ ہو تو وہاں سے ہجرت کر جائیں۔ یعنی وطن سے محبت کو اسلام کی محبت پر قربان کرنا رسول اللہ ﷺ کا اسوہ ہے۔ رسول اللہ ﷺے فرمان کے مطابق وطنیت کی تعریف اور اسکے اصول و مبادی الگ ہیں اور تہذیب نو میں الگ ہیں، یہ دونوں تصور ایک دوسرے کے مخالف ہیں۔
چوتھا بند
اقوامِ جہاں میں ہے رقابت تو اسی سے
تسخیر ہے مقصودِ تجارت تو اسی سے
خالی ہے صداقت سے سیاست تو اسی سے
کمزور کا گھر ہوتا ہے غارت تو اسی سے
اقوام میں مخلوقِ خدا بٹتی ہے اس سے
قومیتِ اسلام کی جڑ کٹتی ہے اس سے
معنی
رقابت: مخالفت، دشمنی۔
تسخیر: فرمانبردار بنانا، قبضہ کرنا۔ غارت: برباد۔
تشریح
اس بند میں علامہ اقبال نے وطنیت کے کچھ بڑے نقصانات اور برائیوں کی نشان دہی کی ہے۔ چونکہ جذبۂ وطنیت سے سرشار لوگ اپنی قوم یا گروہ کو دنیا میں سب سے اعلیٰ اور باقی لوگوں رذیل سمجھتے ہیں اس لئے تمام ملکوں میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت کی فضا پائی جاتی ہے۔ تجارت کا مقصد بھی دوسرے ملکوں کو مالی اعتبار سے تسخیر کرنا ہو گیا ہے۔ یہی وطنیت کا جذبہ ملکوں اور تعلقات میں دھوکہ و منافقت کو جائز بنا دیتا ہے۔ یہی وطنیت کا جذبہ اپنے علاوہ دوسری کمزور قوموں پر ظلم و ستم روا رکھنے پر ابھارتا ہے۔ یہ تصورِ وطنیت خدا کی مخلوق کو رنگ و نسل، زبان و علاقائیت میں بانٹتا ہے ان میں منافرت کے بیج بوتا ہے۔ اپنی تمام تر نقص اور برائیوں کے ساتھ یہ اسلام کے تصورِ قومیت یعنی عالمی و آفاقی قومیت کے خلاف بھی ہے، گویا یہ تصورِ وطنیت اسلام کی جڑ کاٹ دیتا ہے۔
Video Credits : Eagle Claw On YouTube