تحریکاتِ اسلامی کی سوچ و فکر اور لائحہ عمل پر تنقید کرنے والوں کے پاس دلائل و براہین ایک سے نہیں ہیں۔ ان میں سے کچھ دینی یا دنیاوی مصلحت و مفاد کی بنیاد پر تحریکات کو طعن و تشنیع کا نشانہ بناتے ہیں، تو کچھ فرنگی خیالات سے متاثر اور مرعوب ہیں اور کچھ ایسے بھی ہیں جو اپنے معاشرے اور زمانے کے حالات اور رجحان کو مدنظر رکھتے ہوئے تحریک سے کنارہ کش ہیں۔
ان معترضین میں ایسے بھی ہیں جو بظاہر تو سیاست و علم سیاست کے ماہرین ہیں لیکن درحقیقت انکی سوچ و فکر ابھی نامکمل اور ناقص ہے، ابھی وہ غلبہ اور حاکمیت کو سمجھ نہیں پائے ہیں۔
ان ناقدین کا ایک طبقہ وہ ہے جو پیری و شاہی کی کرامات اور جادو پر نظریں ٹکائے بیٹھے ہیں، اور وہ لوگ بھی ہیں جو غلبۂ دین کے کام کو فرصت کے وقت پر ملتوی کردینا چاہتے ہیں۔
ان معترضین میں کچھ دینِ اسلام کی عجمی تعبیر کو ہی اسلام کا نام دیتے ہیں، یہ اسلام کا شعور حاصل کرنے بجائے اپنے علماء، مشائخ اور باپ دادا کی اندھی تقلید کو ہی اسلام کا طریقہ اور قرآن کا حکم سمجھتے ہیں۔
ان ناقدوں میں ایسے لوگ بھی ہیں جو فقہی بحثوں کی آڑ لے کر غلبۂ دین کے تصور اور عمل سے رخصت لے لیتے ہیں، اور کتنے ہی ایسے ہیں جو کسی بزرگ یا شیخ سے اپنے تعلق کو ہی نجات کی ضمانت گردانتے ہیں۔
کچھ لوگ اپنی لاعلمی، غفلت اور ناعاقبت اندیشی کی وجہ سے تحریکات سے ناآشنا اور اسکے مخالف ہیں، لیکن ان میں وہ لوگ بھی ہیں جو علم و نظر رکھنے کے باوجود تحریک سے لاپرواہی برتتے ہیں اور اس کی مخالفت کے مرتکب ہیں۔
غلبۂ دین کی راہ سے کنارہ کش ہونے والوں میں مسندوں پر بیٹھے ہوئے علماء اور خانقاہوں کے درویش بھی ہیں، جو خدا کی مخلوق پر اپنے مقام و مرتبہ کے ذریعہ رعب جماتے اور اپنے طابع رکھتے ہیں۔
ایک طبقہ اس کا بات کا مدعی ہے کہ وہ قرآن و سنت کا تذکرہ کرنے والے اور خدا کے ذکر میں منہمک رہنے والے ہیں، دین کے نشیب و فراز اور ظاہر و باطن کو سمجھنے والے اور اس میں غور و فکر کرنے والے ہیں۔
کچھ مخالفینِ تحریک ایک دوسرے کی ہمتیں بڑھانے کا کام کرتے ہیں اور کچھ اس طرف سے شک و شبہ کا شکار ہیں۔ کچھ اپنی فطری کجی اور شرارت کی وجہ سے مخالفت پر آمادہ ہیں، تو کچھ دونوں افکار کے درمیان ڈانواں ڈول ہیں کہ کس طرف جائیں۔
کچھ لوگ جد و جہد کے بجائے محض دعاؤں اور عبادات کو ہی غلبۂ دین اور انقلاب کا طریقۂ کار سمجھتے ہیں، اور ایسے لوگ بھی ہیں جو انقلاب اور اسلام کے مستقبل کے غم میں ڈوبے تو رہتے ہیں لیکن کوئی عملی کوشش نہیں کرنا چاہتے۔ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ انقلاب و غلبہ کی دشوار گزار گھاٹی کو یوں ہی آسانیوں کے ساتھ کر لیں اور ایسا اس لئے ہے کہ ان کے دل آزمائشوں اور مشکلات سے بے زار ہیں۔
عوام کا وہ گروہ جو تصوف کے زیرِ اثر رہا ہے، لا الہ کا ورد تو کرتا رہتا ہے لیکن وہ اس جملہ کی معنویت اور مقاصد سے بالکل بھی آشنا نہیں ہے، اگر وہ اس کو راز کو پہنچ جاتے تو ان کی کوششوں کا مرکز کچھ اور ہوتا۔
از : ماہر القادری