Tariq’s Dua/طارق کی دعا

TARIQ’S PRAYER
(In the Battlefield of Spain)

یہ نظم اسپین پہ حملہ آور اسلامی فوج کے کمانڈر طارق بن زیاد کے دعائیہ کلمات پر مشتمل ہے۔ اسلامی فوج کے اسپین پہنچنے کے بعد طارق بن زیاد نے ساری کشتیاں جلا دی تھیں اور کہا تھا کہ اب یا تو شہادت کو گلے لگائیں گے یا غازی بن کر واپس لوٹیں گے۔ انھوں نے اسلامی فوج کی قلیل تعداد و وسائل اور دشمنوں کی طاقت کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ سے یہ دعا مانگی تھی جس کو علامہ نے نظم کے نفیس پیرایے میں پیش کیا ہے۔
اس نظم میں علامہ نے جہاد کی روح اور فکر کو طارق بن زیاد کی تلمیح میں پیش کیا ہے۔

پہلا بند
یہ غازی یہ تیرے پر اسرار بندے
جنہیں تو نے بخشا ہے ذوقِ خدائی
دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذتِ آشنائی
شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومن
نہ مالِ غنیمت نہ کشور کشائی
خیاباں میں ہے منتظر لالہ کب سے
قبا چاہیئے اس کو خونِ عرب سے

 
معنی
کشور کشائی: بادشاہی۔
لذتِ آشنائی: عشق کا مزہ۔
خیاباں: پھلواری۔
لالہ: ایک قسم کا سرخ پھول جس میں سرخ داغ ہوتا ہے۔
قبا: کپڑا یا چادر
۔
 
شرح
طارق بن زیاد اللہ سے دعا کرتے ہیں  کہ اے مولیٰ کریم! یہ تیرے عاجز بندے جن کو تونے سرفروشی اور کفر پر غالب آنے کے جذباتِ عالیہ سے نوازا ہے، جن کے گھوڑوں کی ٹھوکر سے صحرا اور دریا کائی کی طرح پھٹ جاتے ہیں اور جن کے نعرہ تکبیر سے پہاڑوں میں لرزہ پیدا ہو جاتا ہے، اس وقت اپنے وطن سے دور سر سے کفن باندھ کر تیرے نام کو بلند کر نے کے لئے اس اجنبی شہر اور اجنبی ملک (اسپین) میں آئے ہیں ۔جہاں تیرے سوا ان کا کوئی دوست و رفیق یا مدد گار نہیں ہے پس تو اپنے فضل و کرم سے ان کو فتح عطا فرما۔
اے خدا! یہ مٹھی بھر مسلمان چونکہ تیری محبت میں سرشار ہیں اس لئے ان کے قلوب دوعالم سے بیگانہ ہے۔ان کا مقصود اور مطلوب نہ مالِ غنیمت ہے نہ کشور کشائی نہ عیش و عشرت نہ فرما روائی بلکہ تیری راہ میں شہادت ان کا مقصد ہے ۔
باغ (دنیا) کے پھول (انسانیت) کب سے راہ تک رہے ہیں کہ کب عرب کےلوگ آکر اپنی قربانیوں اور رسولﷺ کی پیش کی ہوئی اقدار و نظام کی بدولت پوری دنیا کو انصاف سے بھر دیں اور ظلم کا خاتمہ کریں۔ (ظلم کا خاتمہ ہی جہاد کی اصل روح اور مقصد ہے۔)


دوسرا بند
کیا تو نے صحرا نشینوں کو یکتا
خبر میں، نظر میں، اذانِ سحر میں
طلب جس کی صدیوں سے تھی زندگی کو
وہ سوز اس نے پایا انہیں کے جگر میں
کشادِ درِ دل سمجھتے ہیں اس کو
ہلاکت نہیں موت ان کی نظر میں
دلِ مردِ مومن میں پھر زندہ کر دے
وہ بجلی کہ تھی نعرۂ ‘لا تذر’ میں
عزائم کو سینوں میں بیدار کر دے
نگاہِ مسلماں کو تلوار کر دے

 
معنی
کشادِ در: دروازے کا کھلنا۔
ہلاکت: بربادی۔
لاتذر: کسی کو زندہ نہ چھوڑ (حضرت نوح علیہ السلام کے دعا کے الفاظ جس میں انھوں نے کہا تھا کہ اے اللہ کسی کافر کو اس زمین پر زندہ نہ چھوڑ)
عزائم: عزم کی جمع، حوصلے۔
 
شرح
اے خدا! تو نے اپنے فضل و کرم سے عربوں کو جو تیرے رسول پاکؐ کی بعثت سے پہلے محض صحرا نشیں تھے، ایمان و عشق اور جہاد ان تینوں نعمتوں کے لحاظ سے دنیا کی ساری اقوام میں شانِ یکتائی عطا فرمائی۔حیات انسانی جس سوز و گداز کی طالب تھی وہ انہی عربوں کی بدولت اسے نصیب ہوا۔ یعنی اے خدا! اس قوم کے دل میں عشقِ رسولؐ کی بدولت سوز و گداز کا رنگ پیدا ہو گیا ہے جس کی بنا پر زندگی اپنے مرتبۂ کمال کو پہنچ گئی ہے اور اسی جذبہ کا نتیجہ ہے کہ یہ قوم موت کو ہلاکت کے بجائے حصولِ مقصد کا ذریعہ یقین کرتی ہے۔اےخدا ! ان غازیوں کے دل میں دینِ اسلام کو کفر پر غالب کر نے کا وہی جذبہ پیدا کر دے جو حضرت نوح علیہ السلام اور حضرات انبیاء کرام علیہ السلام کے دلوں میں موجزن تھا۔
 آیت لاتذر کی طرف اشارہ کرنے کا مقصد اقبال کا یہ ہے کہ مومن کی سب سے بڑی آرزو یہ ہوتی ہے کی دنیا سے کفروظلم کا خاتمہ ہو جائے اور اسلام اور انصاف سارے ادیان اور نظریات پر غالب آجائے چنانچہ وہ اسی مقصد کے لئے جہاد فی سبیل اللہ کرتا ہے۔
آخر میں طارق اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ اے خدا! مسلمان کے اندر ساری دنیا میں اسلام کی اشاعت کا عزم پیدا کر دے اور اس مقصد کے لئے اس کی نگاہ کو تلوار بنا دے یعنی اس کی شخصیت میں یہ شان پیدا کر دے کہ کفر اس کے سامنے فروغ نہ پا سکے یا کفار اس کے مقابلہ میں ٹھہر نہ سکیں۔