(تضمین بر شعر فیؔضی)
پہلا بند
اقبال مغربی تہذیب کو شراب سے تشبیہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ مغربی تہذیب کے اثرات کے نشے نے، جس کی بنیاد مادہ پرستی ہے،مسلم نوجوانوں کے جذبات کو اس قدر برانگیختہ کر دیا ہے کہ وہ اسلام کے دائر ہ اعتدال سے باہر ہو تے جا رہے ہیں۔
دوسرا بند
اس تہذیب کا ظاہری پہلو یہ ہے کہ یہ تہذیب ادھار کی روشنی سے اس قوم کے ذرّوں کو منور کرتی ہے اور بدلے میں انکے جوہر چھین لیتی ہے، دیکھنے والوں کو قوم کے نوجوانوں کی زندگیاں بڑی کامیاب نظر آتی ہیں بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ بڑی ترقی کر رہے ہیں حالانکہ معاملہ بالکل دگرگوں ہے۔
تیسرا بند
ان کی طبیعت میں انقلاب عظیم پیدا ہو گیا ہے چنانچہ ان کی زندگی میں جو یہ فیشن پرستی،آزادی،بیداری اور بےباکی نظر آتی ہے یہ سب اس تہذیب کا کرشمہ ہے۔
چوتھا بند
ان خیالات اور افکار میں اس قدر بے راہ روی پیدا ہو گئی ہے کہ وہ اب بزرگوں کی نصیحت کو خاطر ہی میں نہیں لاتے ہیں اور ان کی قربانیوں و خدمات کو حقارت و تمسخر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اس نشیب کو وہ فراز سمجھ بیٹھے ہیں۔
پانچواں بند
لیکن حقیقت حال یہ ہے کہ اس تہذیب کے جھوٹے دلکش مناظر کی بدولت نوجوانانِ اسلام اپنی مستحکم ملّی روایات اور اسلام کے وضع کردہ بلند ترین اصولوں سے بالکل بےگانہ ہو چکے ہیں اور اب انہیں اپنے اسلاف کے طریقوں سے کوئی وابستگی باقی نہیں رہی ہے۔
چھٹا بند
اب ان کی زندگی میں ہمدردی کے بجائے رشک و حسد غیرت کے بجائے خودفروشی،صبر و استقلال کے بجائے ناشکیبائی اور ضبطِ نفس کے بجائے ہوسنا کی کافرما ہے یعنی مسلم نوجوانوں نہ صرف یہ کہ ایک دوسرے سے حسد کرنے لگے ہیں بلکہ انھوں نے چھوٹے چھوٹےمفادات کی خاطر خود کو غیروں کے ہاتھوں بیچ دیا ہے، وہ اس قدر نا شکرے بن چکے ہیں کہ لالچ اور حرص و ہوس نے انکی تمام اخلاقی قدروں کو برباد کر دیا ہے۔
ساتواں بند
اگر چہ اس تہذیب کی بنا پر ہر طرف ترقی کاشور برپا ہے اور بیداری کے آثار نظر آرہے ہیں اس کے باوجود میں اپنی قوم کے نوجوانوں سے کچھ کہنا چاہتا ہوں جو اس بزم نو کی شمع کا پروانہ وار طواف کر رہے ہیں۔
آٹھواں بند
یہ فارسی شعر ابوالفیض فیضیؔ دکنی کا ہے جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ اے پروانے تیری یہ گرمی محفل کی شمع سے حاصل کی ہوئی ہے، اگر تو واقعی سوزِ دل (عشق) رکھتا تو میری طرح اپنی ہی آگ میں جل۔
اس شعر کے علامہ اقبال یہ پیغام دے رہے ہیں کہ اے مسلم نوجوانوں!یہ جو کچھ ترقی تم کر رہے ہو ، یہ تمہاری ذاتی خوبی کی بنا پر نہیں ہے تم نے اپنے آپ کو مستعار لباس سے آراستہ کر رکھا ہے اگر تم واقعی ترقی کے آرزومند ہو تو غیروں کی تہذیب کے بجائے اپنی قومی روایات پر عامل ہو کر دنیا میں عزت حاصل کرو یعنی مسلمان رہ کر دنیا میں چمکو تو یہ قابلِ فخر بات ہے۔